July 15, 2011

ہوا ئیاں

hawaiyan


ایک لڑکے اور لڑکی میں بڑی دوستی تھی۔لڑکا دیسی اور لڑکی گوری تھی۔گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ والی کہانی تو نہیں تھی پر اچھی خاصی بے تکلفی تھی۔لڑکی کی خواہش تھی کہ لڑکا اس کا بوائے فرینڈ ہو جائے پر وہ لڑکی کو ٹرخائی کھڑا تھا۔لڑکی دن بدن موٹی ہو رہی تھی تو ایک روز لڑکے نے اس سے پوچھ لیا کہ کیا تم حاملہ تو نہیں ہو؟ یورپ کا کھلا ڈلا ماحول ہے کچھ بھی پوچھا جا سکتا ہے۔ لڑکی جو اس لڑکے کو پھسانے کی غرض سے کسی اور کے ساتھ تعلق نہ رکھ پائی تھی نے جل کر جواب دیا کہ کیا ہوا سے حاملہ ہو گئی ہوں۔

 ہوا سے حاملہ سے ایک اور واقعہ سن لیں۔فرض کرلیں میری ایک لڑکی سے دوستی تھی (حالانکہ آپ جانتے ہیں اپنی ایسی قسمت کہاں لیکن فرض کرنے میں کیا ہرج ہے)ایک دن اس نے مجھے فون کر کے کہا میں تم سے ملنا چاہتی ہوں میں نے کہا خیر ہے آج خصوصی طور پر فون کر کے بلا رہی ہو،کہنے لگی میں تمھیں گلے لگا کر تمھارے کان میں کوئی بات کرنا چاہتی ہوں۔میں نے کہا اچھا اور بازار سے جا کر نئی سم لے لی اور وہ نمبر جو اس کے پاس تھا استعمال کرنا چھوڑ دیا۔اور یوں ہمارا تعلق ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔اصل میں تب اسٹار پلس تھا نہیں لہذا اس کی بات سے میرے ننھے سے دماغ میں یہی بات آئی کہ وہ گلے لگا کر شادی کرنے کی بات ہی کرے گی لہذا جان چھڑاؤ۔اب ہر دوست سے شادی تو نہیں ہو سکتی ناں۔


 کچھ ماہ قبل میرے دوستوں کے فہرست میں ایک اور نابغہ روزگار ہستی کا اضافہ ہوا۔انہوں نے اپنے علاوہ سب کی سدھار کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ہر معاملے پر وہ لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور سانپ بھی مر جائے کا کلیہ استعمال کرتے ہیں یہ الگ بات کہ آخر میں لاٹھی ٹوٹ جاتی ہے اور سانپ انکے گلے میں لپٹا پایا جاتا ہے لیکن وہ باز نہیں آتے۔اگر آپ کوئی کام سر انجام نہیں دینا چاہتے تو بلا تکلف انکی خدمات حاصل کریں وہ انتہائی مخلصانہ انداز میں اس کو کرنا شروع کریں گے اور آخر کار اس کو ناقابل تکمیل بنا کر چھوڑیں گے۔ان سے ایک دن گفتگو کرتے کرتے جب وہ لڑکیوں کی عادات و اطور پر اپنا مقالہ پیش کر چکے تو ہم نے بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے کا فیصلہ کر لیا اور ان سے پوچھ لیا کہ بھائی جان آپ نے دنیا دیکھ رکھی ہے سیانے بیانے بندے ہیں ایک بات تو بتائیں کہ اگر لڑکی کہے میں گلے لگ کر کان میں ایک بات کہنا چاہتی ہوں تو کیا بات کہتی ہے وہ؟کیا وہ شادی کی بات کرتی ہے؟ کچھ دیر وہ ہنستے رہے جیسے کوئی جہاں دیدہ بزرگ معصوم بچے کی لاف وگذار سے محفوظ ہوتا ہے اور پھر کہنے لگے شاہ جی جب لڑکی کہے ناں میں گلے لگ کر بات کرنا چاہتی ہوں تو وہ دو باتیں کر سکتی ہے۔پہلی یہ کہ میں تمھارے بچے کی ماں بننے والی ہوں۔میں نے دل ہی دل میں اپنے فیصلے کو سراہااور تمام قصہ سنا کر پوچھا کیا ہوا سے بھی کوئی حاملہ ہوا ہے؟

 کچھ دنوں بعد مجھے یاد آیا تو میں نے اپنے ان دوست سے پوچھا بھائی جان دوسری بات تو اس دن آپ نے بتائی نہیں تھی میں تو صدمے کے مارے بھول ہی گیا تھالڑکی گلے لگا کر دوسری بات کیا کرتی ہے بھلا؟انہوں نے کچھ دیر سر کھجایا اور کہا دوسری بات تو میں بھول گیا ہوں۔

 چلتے چلتے ایک ہوائی لطیفہ بھی سن لیں جو ان دو واقعات کے بعد ہوائی شکل میں آیا ہے اس سے پہلے آپ نے سنا ہو گا تو اس میں ہوائی فیکٹر موجود نہ ہوگا۔ کہ ایک بچے نے اپنے والد سے پوچھا کہ وہ کیسے پیدا ہوا تو والد صاحب نے بچے کو مضر اخلاق باتوں سے محفوظ رکھنے کے لیے کہ کہا کہ ایک بگلا تمھیں ہمارے گھر ڈال گیا تھااور بھیا کیسے پیدا ہوئے ایک فرشتہ اس کو سرہانے رکھ کر چلا گیا تھا جب باقی دو بھائیوں کے بارے میں بھی ایسی ہی تاویلیں سننے کو ملیں تو بچہ تنگ آکر بولا کیا مطلب ہم میں سے کوئی نارمل پیدا نہیں ہوا؟جانے دیں پاپا کیا کبھی کوئی ہوا سے بھی پیدا ہوا ہے؟

 بارہویں جماعت کی بات ہے کہ ہمارے ایک سابقہ ہم جماعت ہمارے ایک اور ہم جماعت میاں صاحب کے پاس گئے اور کہنے لگےآپکی تھوڑی مدد چاہیے میاں صاحب جو اس زمانے میں ہر وقت حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے کو تیار رہتے تھے بولے حکم! وہ دوست گویا ہوئے "میاں صاحب ایک لڑکی ہے میرے ساتھ پڑھتی ہے بیچاری غریب ہے اپنے والدین کا اکلوتا سہارا ہے اس کو میں کبھی کبھار پڑھا دیا کرتا ہوں لیکن ایک مسئلہ آن پڑا ہے" ۔ خدمت خلق اور وہ بھی صنفِ نازک ، میاں صاحب سینہ چوڑا کر کے بیٹھ گئے کیونکہ وہ سمجھے اس لڑکی کی ذمہ داری میاں صاحب کے ناتواں کندھوں پر آن پڑنے والی ہے، میاں صاحب گلا صاف کر کے بولے "میرے بارے کیا ارشاد ہے"؟ وہ بولے "میاں صاحب ہمارے معاشرے کی تنگ نظری تو آپ جانتے ہیں"۔ میاں صاحب نے بڑے زور سے حمایت میں سر ہلایا وہ مزید کہنے لگے کہ "اصل میں کالج والے اور باقی لوگ شک کرتے ہیں میں اس کو وہاں نہیں پڑھا سکتا اپنے گھر اس کو لے کر جا نہیں سکتا اور اس کے گھر جاؤں تو اسکی بدنامی کا ڈر ہے لہذا کوئی جگہ کا بند وبست کر دیں جہاں میں اس کو پڑھا دیا کروں تاکہ وہ بنت حوا اپنی تعلیم مکمل کر کے اپنے گھر والوں کا پیٹ پال سکے۔باقی اجر دینے والی تو خدا کی ذات ہے ہم تو بس دعا دے سکتے ہیں بے شک ایک کمرہ ہی مل جائے ہم کیسے نہ کیسے گذارہ کرہی لیں گے"۔ میاں صاحب یہ سب سن کر بھی بد مزہ نہ ہوئے اور ان سے وعدہ کر بیٹھے کہ جلد ہی کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔اب میاں صاحب کی بد قسمتی کہ وہ اس زمانے میں مجھ سے مشورہ لیا کرتے تھے اور ان ہم جماعت کی بد قسمتی کہ میرا کہا مان بھی لیا کرتے تھے۔میں نے کہا "میاں صاحب ہوش کی دوا کرو۔رقیب تو بوسے لیں محفل میں جام کے اور ہم صر ف دعاؤں کے نام پے؟تجھے ریاضی نہیں آتی یا مجھے نہیں آتی جو ہم نہیں پڑھا سکتے،ہم صرف جگہ دینے کے کام کے ہیں؟ واہ جی واہ یہ کیا بات ہوئی اس کو کہو اس لڑکی کا نمبر دیں ہم پڑھا بھی دیا کریں گے اور جگہ کا بھی انتظام ہو جائے گا"۔ میاں صاحب کو بات عقل لگی اور لگنی بھی تھی آخر کو لڑکی کا معاملہ تھا جس پر ہم ملتان پبلک اسکول بوائیز برانچ والے ہمیشہ سے رال ٹپکاتے آئے تھے۔ میاں صاحب صاف صاف جواب تو نہ دے سکے لیکن ٹالتے رہے اور کچھ دنوں بعد اس ہم جماعت کو بھی سمجھ آگئی کہ یہاں دال جوتیوں میں بٹنے والا حال ہے لہذا انہوں نے پھر کبھی رابطہ نہیں کیا۔وہ ہم جماعت کچھ عرصے بعد برطانیہ چلا گیا اب ان سے ملاقات ہو تو پوچھیں کہ استادی شاگردی کہاں تک پہنچی اور کہیں ان کے برطانیہ جانے کی وجہ بھی ’’ہوا‘‘ تو نہیں بنی۔لیکن ان کے جانے کی وجہ جو بھی رہی ہو پر جب ہمارا سالِ دوئم کا نتیجہ آیا تو میرے ریاضی میں صرف چھتیس نمبر تھے اور میاں صاحب خیر سے کمپارٹ یافتہ ٹھہرے تھے۔