October 16, 2011

گوریاں پراگ دیاں

Goriyan Prague diyan


 پوچھا کبھی اصلی والی بھول بھلیاں میں گئے ہو ؟ جواب دیا جی دو بار تو پراگ کے ہوائی اڈے کا چکر لگا چکا ہوں۔شیطان
کی آنت سا طویل بغیر کسی اشارے ؛ بورڈ کے چلتے جائیں اور ہر دروازاہ لگتا ہے کہ شاید یہی میری منزل ہے لیکن نہیں اتنا جلدی نہیں اگر راستہ یاد نہیں تو تین چار جگہوں سے خفت لازمی اٹھانی پڑے گی۔ 

پراگ کے ہوائی اڈے پر اتر کر جس امیگریشن انسپکٹر سے پالا پڑاوہ خاتون تھی ،گوری تھی اور خوبصورت تھی۔ اس کو    دیکھ کر جی تو چاہا کہ اسی کے ہاتھ بیعیت کر لی جائے لیکن ایک تو اس کی وردی آڑے آئی دوسرا اپنے بارے یہ بھی یقین نہ تھا کہ وہ واقعی اتنی خوبصورت تھی یا یہ ملتان کی چار مہینے گرمیاں سہنے کا نتیجہ تھا کہ دلدل بھی تھنڈے پانی کا چشمہ لگ رہا تھا۔ 


پراگ کہیں پراگا کہیں یا پراہا ایک ہی بات ہے جو سابقہ چیکو سلواکیہ اور موجودہ چیک یا چیخ ریپبلک کا دارالحکومت ہے۔لوگ ابھی تک بھی چیک یا چیخ کو کم اور چیکو سلواکیہ کو زیادہ جانتے ہیں جب کہ اب تو کافی عرصہ ہوا چیکو سلواکیہ دو ملک بن چکے ہیں چیک یا چیخ اور سلواکیہ۔ حتی کہ جہاز کے کپتان صاحب نے بھی بے خودی میں اعلان فرمایا کہ ہم پراگ اترنے والے ہیں جو کہ چیکو سلواکیہ کا دارالحکومت ہے جس پر جہاز میں ایک زبردست قہقہہ پڑا اور کپتان صاحب نے فوراً چیخ ریپبلک کہہ کر تصیح کر دی۔ اب کپتان صاحب کا کیا قصور یہاں تو لوگ پجارو چلاتے وقت ترنگ میں آجاتے ہیں کپتان صاحب تو جہاز چلا رہے تھے کوئی مذاق تھوڑی ناں ہے۔

 پراگ میں لڑکیوں کے بالوں کا پسندیدہ رنگ یا فیشن رنگ سرخ ہے۔ مجھے نجانے کیوں خوبصورت سے خوبصورت لڑکی کے سرخ رنگ کے بال دیکھ کر ماسی زُہراں یاد آ جاتی ہے۔ماسی  زُہراں مصلن یعنی بھنگن تھی اور فلش سسٹم کے متعارف ہونے سے پہلے گھر گھر جا کر بیت الخلا صاف کرتی تھی اور گند وغیرہ ساتھ لے جا کر گائوں سے کہیں دور پھینک آتی تھی۔ کافی عرصہ بعد پتہ چلا کہ اس عمر میں آ کر گائوں کی اکثر خواتین بال سرخ مہندی سے سرخ رنگ لیا کرتی ہیں ۔پر پراگ کی گوریاں ہوں یا گائوں کی ماسیاں پر تشبیہ ماسی ظہراں ہی رہی ہے۔ 

پراگ کا سن کر ایک دوست نے کہا اچھا وہ جہاں کا فن تعمیر اپنی مثال آپ ہے دوسرے نے کہا لعنت بھیجو مجھے کوئی مفت بھی بھیجے تو نہ جائوں ۔یہاں آ کر عقدہ کھلا کہ دوسرے دوست کو پراگ پسند کیوں نہ آیا تھا۔ایک تو ان کو فن تعمیر سے کوئی دلچسپی نہیں دوسرا کسی چیک لڑکی سے بات کر کے دیکھیں وہ ایسے کھسکے گی جیسے آپ نہ ہوں کوئی ہندی فلم کے غنڈوں کی ٹولی ہو اورہماری سوچ ہے کہ مردوں کے منہ کون لگے بس راستہ بھول جائو تو سرائیکی کہاوت کے مطابق ہاں کے سوجھلے یعنی خود سے ہی پوچھو اور خود کو ہی سمجھائو۔اب اتنا تو پتہ ہے کہ مفت بھی نہ جانے والے دوست کو فن تعمیر سے زیادہ فن تعمیر والیوں میں دلچسپی ہے اب جو بندہ وارسا رہتا ہو اس کو خاک پسند آنا ہے پراگ جہاں کی لڑکیوں کے بارے میں سب کو پتہ ہے کہ دو بیئر اندر اور لڑکی آپ کے ساتھ کلب سے باہر۔سانوں وہ لے چل نال وے بابو۔۔۔ 

پراگ کو وارسا کا بڑا بھائی سمجھ لیں۔وہ ناک وہی نقشہ پر خوبصورتی ؛ صفائی اور کشادگی میں وارسا پراگ سے کم ہی ہے۔روسیوں نے یہ کمال کیا کہ روس ہو یا روس سے متاثرہ کمیونسٹ ملک شکل صورت میں سب ایک سے ہیں۔ مختصر یہ پراگ ایک بار تو لازم جایا جائے لیکن دوسری بار؟ آخر ہم بھی سینے میں دل رکھتے ہیں یار اس بہتر نہ ہوگا کہ کسی اور ملک کی گوریوں کو آزمایا جائے۔میرا مطلب عمارتوں سے تھا چلیں چھوڑیں آپ نے کہاں ماننا ہے۔