April 12, 2012

تم سے تھے جتنے استعارے تھے

Tum se thay jitny istary thay


لیں جی کلاس نہ ہوئی مذاق ہو گی۔ہمارے پروفیسر صاحب جنکو ہم انکی عمر کی مناسبت سے بابا جی کہتے ہیں۔ ہمیں مجیمنٹ تھیوری پڑھاتے ہیں۔کہنے لگے کچھ سال قبل ایک گورے نے پخ ماری تھی کہ آرگنائزیشن کو استعارے کے طور پر دیکھو اور اس نے آٹھ راہنما استعارے مقرر کیے تھے۔

اب ہمارے شعری جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی کہ ہم تو صرف رنگ و خوشبو اور  حسن و خوبی کے استعاروں سے واقف تھے تنظیمی استعارہ بازی میں الجھا لیے گئے۔اس کی پخ بازی کی نسبت سے ہمارے باباجی نے ہمارے ذمے لگایا کہ ہر بندہ اس میں اپنی اپنی ٹانگ گھسیڑے اور ان آٹھ کے علاوہ مزید استعارے پیش کیے جائیں۔


شروع شروع میں تو لوگ عقلیت پسندی کی باتیں کرتے رہے لیکن جب عقلیت پر مشتمل الفاظ ختم ہوئے تو لوگ چبلیوں پر اتر آئے۔پر اصل کمال ہماری چولیوں کا نہیں بلکہ باباجی کے حوصلے کا تھا جنہوں نے مجال ہے جو کسی کو غلط کہا ہو بلکہ سب کو شاباشی دی کہ واہ کیا مثال دی ہے۔کسی نے کہا الو تو بولے واہ آپ نے تو میرے دل کی بات کر دی الو کیا الو کا پٹھہ ہوتا ہے کسی نے کہا کتا تو بولے یہ چیز ،کتا کیا کتے کا۔۔۔خیر چھوڑیں سمجھ آپ گئے ہی ہونگے۔

اب کیا کیا استعارے پیش کیے گئے آپ بھی ملاحظہ کریں۔

پہلے پہلے تو اچھی اچھی باتیں ہوئیں کہ یہ ایک خاندان کی طرح ہے، اسکول کی طرح ہے وغیرہ وغیرہ۔
ہماری باری آئی تو جی تو چاہا فیض صاحب کا استعارے والا شعر ان کی نذر کریں لیکن ایک تو ان کو اردو نہ آتی تھی دوسرا باباجی کو کہنے سے کہ تم سے تھے جتنے استعارے تھے ہماری چوائس پر بات آنی تھی اور فیض صاحب کے الفاظ کم زیادہ کرنے کا حوصلہ ہم میں نہ تھالہذا ہم نے مذہب کی مثال دے کر جان چھڑا لی اور استاد صاحب نے شاباشی کی روایت قائم رکھی۔

ایک بھائی صاحب نے فرمایا کہ تنظیم ایک عورت کی طرح ہوتی ہے کیونکہ دونوں پیچیدہ ہوتی ہیں۔ہم اس سے پیار کرتے ہیں اس موقع پر انہوں نے ایک ہاتھ کو دوسرے سے ٹکراکر پیار کا عملی مظاہرہ بھی کیا حالانکہ اس کی قطعی ضرورت نہ تھی اور نہیں تو پاکستانی ہونے کا خیال کیا ہوتا۔

ایک صاحب نے شہکار چول ماری اور فرمایا کہ آرگنائزیشن ایسے ہے جیسے گلاس میں پانی اور بابا جی سے داد وصول کر کے ہمیں قلندر نہ ہونے کے باوجود پانی پانی کر گئے۔

ایک بی بی دور کی کوڑی لائیں اور فرمایا کہ تنظیم سالگرہ کے کیک سی ہے۔اس کو سنوارتے ہیں موم بتیاں جلاتے ہیں۔کھانے والا حصہ وہ شاید شرمندگی سے چھپا گئیں ۔باباجی نے لقمہ دیا پھر جیسے ہم اس کو کھا جاتے ہیں اس پر ان بی بی نے ایسے سر ہلایا جیسے انہوں نے ہی یہ نقطہ بابا جی کو بتایا ہو۔

ایک نے فرمایا یہ اوپرا ہے اب وہ اسے وہ اوپرا ونفری شو والا اوپرا بتا رہی تھیں لیکن باباجی نے تھیٹر والا اوپرا سمجھ کر اس کی تفصیلات بیان کر نا شروع کر دیں جس میں ایک موٹی سی عورت سٹیج پر چیخیں مارنے کا مظاہرہ کرتی ہے۔

ایک صاحب نے فرمایا یہ بگ باس ہے۔افسوس وقت کی کمی کے باعث میں ان سے وینا ملک کے کردار کے بارے نہ پوچھ سکا۔صاحبہ ہوتیں تو ملکانی  بی بی کے ٹیٹو پر بھی گفتگو کی جا سکتی تھی۔

بہرحال جب کلاس سے نکلے تو دماغ اپنی جگہ پر ہر گز موجود نہ تھا ۔ جی چاہا کہ استاد جی کو مظہر الاسلام صاحب کی افسانوں کی کوئی کتاب تحفہ کروں اور ان سے کہوں اب گڑیا کی آنکھ سے شہر کو دیکھ کر بتائیں کہ گھوڑوں کے شہر میں اکیلا آدمی کیسا ہے اور یہ کہ ان کوبھی  پتہ چلے کہ آخر استعارہ ہے کس مرض کا نام۔ لیکن وہ کیا ہے نہ کہ اب اردو شاعری کی روایات ہمکو پاس ہونے سے زیادہ پیاری تو نہیں ناں۔