April 1, 2012

پولینڈ میں ہمارا فرمانا عشق

Poland main hamara farmana ishq

ایمان کی بات کی جائے تو ہم تو لڑکی کا چہرہ دیکھ کر پھسل پھسل سے جاتے ہیں کجا پاس بیٹھنا ، باتیں کرنا۔ لہذا پاکستان 
 ہمارے جیسے عاشقوں کے لیے خاصی اچھی جگہ ہے جہاں اکثر  حالاتمیں فاصلہ قائم رہتا ہے اور دور دور سے دیکھ جی بھر کے سرد آہیں بھر بھر کے آپ بندے کے پتروں والی زندگی گزار 
سکتے ہیں۔

پر قدرت کو ہمارا امتحان مقصود تھا اور پھر فیل کرنا مقصود تھا تو پہلے ہم کو دبئی بھیج دیا جہاں میرے کولیگ کہا کرتے تھے کہ منیلا کا حال سنائو کیونکہ ہمارے سیکشن میں سب فیلپینیاں تھیں پر ہمارا ایشیا بعید میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی لہذا اگلا پرچہ مزید سخت بناتے ہوئے قدرت نے ہمیں پولینڈ لا پھینکا۔

اب شروع شروع میں تو ہم اس شرما شرمی میں رہے کہ بھائی ہم بیچاروں کو کون گھاس ڈالے گا پر وقت کے ساتھ احساس ہوا کہ بھائی یہاں ہی تو ہماری قدر ہو گی کیونکہ پولیاں بھوری رنگت پر بڑے زور سے مرتی ہیں۔ اوپر سے ان کی شہرت کے ایک بئیر کی بوتل پلاؤ اور پولی آپ کے ساتھ ہم نے سمجھ لیا کہ وقت آ گیا ہے کہ جب ہمیں میدان عمل میں اتر کر برسوں کی خواہش کی تکمیل کرنی ہوگی۔اور ہم سہیلی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ لیکن جب ایک ایک کر کے سب دوستوں کی سہیلیاں مل گئیں اور پھر دو دو اور تین تین اور پھر تعداد ان گنت تک پہنچ گئی تو ہمیں اپنی اوقات کا احساس ہو گیا اور ہم نے نیکی کا لبادہ واپس اوڑھ لینے میں بہتری سمجھی۔

لیکن جو لکھا تھا وہ ہو کر رہا کہ ایک لڑکی ہوا کرتی تھی ہمارے ہاسٹل میں ہمارے سامنے والے کمرے میں رہا کر تی تھی۔وہ گونگے بچوں کو پڑھایا کرتی تھی جس کی وجہ سے ہم نے اس کا نام گونگی رکھ دیا تھا۔ہم تین پاکستانی وہاں رہتے تھے اور ہم تینوں کی ہی اس پر نظر تھی۔پر ایک کے پاس پہلے ہی تین چار لڑکیاں تھیں جس کی وجہ سے اس نے گونگی تو تب تک موخر کر دیا جب تک کوئی ویکنسی خا لی نہ ہویا گونگی خود آکر اس کے قدموں پر گر جائےکہ اللہ دا واسطہ ای مینوں اپنی یار بنڑا لے۔ دوسرے صاحب بس یہ چاہتے تھے کہ ہر لڑکی ان سے ہیلو ہائے رکھے ،ان کی تعریف کرے بے شک جائے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ پر حال احوال ان سے بانٹےاور جاتے وقت بے شک دس زواتی بیئر کے لیے ان سے لے جائےتو وہ دوست کم اور ابا بننے کے چکر میں زیادہ رہتے تھے اس لیے ان دونوں نے مجھے یقین دلایا کہ شاہ جی پیشقدمی کرو میدان آپ کا ہے۔اب وہ گونگی بھی ہمیں دیکھ کر مسکرایا کرتی تھی جس سے نا چاہتے ہوئے بھی اپنے دونوں ہم وطنوں کی صداقت پر اعتبار آجاتا۔پر اب شاہ جی نے پیش قدمی خاک کرنی تھی کہ اس لڑکی کو صرف پولش آتی تھی اور شاہ جی کی انگریزی بھی گلابی ہے۔لیکن ہر مسکراہٹ کو دیکھ کر لگتا کہ گونگی کہہ رہی ہے ملکر سنائوں گی میں کیسے ہنس ہنس کے جھیلا میں نے دکھ انتظار کا۔۔۔۔

بہر حال ایسا ہوا کہ دونوں دوست پاکستان چلے گئے اور میں نےانکی دی ہوئی بانس پر چڑھ کر پولش سیکھنا شروع کر دی دن رات ایک کر کے اس قابل ہو گیا کہ پولش میں کسی سےاندھی کانی گفتگو کر سکتے۔ ایک دن جب وہ اور میں ہاسٹل میں اکیلے تھے اور باقی سب لوگ ویک اینڈ پر اپنے گھروں کو گئے ہوئے تھے میں نے موقع غنیمت جان کر اس کو کہا "چیش" (cześć)اور گفتگو شروع کر دی۔اور جب دیویزانیاں (Do widzenia) کہہ کر گفتگو ختم ہوئی تو یہ عقدہ کھلا کہ وہ ہمیں دیکھ کر حوصلہ افزائی کرنے کو نہیں مسکراتی تھی نہ ہی وہ خودسپردگی قسم کی مسکراہٹ تھی اور نہ ہی وہ ہمارے انتظارمیں گھلی جا رہی تھی بلکہ وہ تو ہماری پھرتیاں جو ہم اس کو متوجہ کرنے کے لیے دکھاتے تھے ان کو دیکھ کر مسکراتی تھی کہ یہ منہ اور مسور کی دال۔۔۔

بہرحال بری طرح منہ کی کھانے اور اور اپنے نام نہاد نصحیت کاروں کو دل ہی دل میں خوب گالیاں نکالنے کے بعد توبہ کی اور سمجھ لیا کہ بھائی صاحب اپنے بس کا یہ کام نہیں ۔

بس اسی شرمندگی میں پہلے ہاسٹل چھوڑا پھر ملک ہی چھوڑ کرایسٹونیا وہ دن اور آج کا دن اس کو بھولنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔اس کا تو یقین سے نہیں کہہ سکتا پر الحمد للہ جو لولی لنگڑی پولش سیکھی تھی وہ مکمل طور پر بھول چکا ہوں۔