December 1, 2012

مراۃ العروس جدید-خلاصہ

Mirat-ul-Uroos jadeed -khulasa

اصغری اور اکبری جس زمانے میں پیدا ہوئیں اس زمانے میں تو لڑکوں کے نام بھی اصغر اور اکبر نہیں رکھے جاتے تھے 
لہذا انکے نام نکی Niki اور ایلدی Eldy رکھے گئے۔ ماں باپ چونکہ تازے تازے پیسے والے ہوئے تھے لہذا روشن خیال تھے کیونکہ یہ کہانی برصغیر کے زمانے کی نہیں بلکہ آج کل کے پاکستان کی ہے اور آج کل کے پاکستان میں امارت آتی ہے تو روشن خیالی خود بخود اس گھر میں گھس جاتی ہے۔انہوں نے فیصلہ کیا کہ اپنی بچیوں کو لڑکوں کی طرح پالیں گے-

 ایلدی بی بی نے ہائی اسکول کے زمانے میں سے چن چڑھانے شروع کیے اور یونیورسٹی پہنچتے پہنچتے تک اتنے چن چڑھائے کہ سائینسدان تو جو چکرائے سو چکرائے آسمانی چن اور لاہوری حبیب الرحمان چن تک مستقل پردے میں رہنے لگے۔بڑی کے رنگ ڈھنگ دے کر روشن خیالوں کو خیال آیا اور انہوں نکی بی بی کو گھر داری کی طرف متوجہ کرنا چاہا وہی اولڈ تھنکنگ یو نو۔۔۔ مستقل ڈالڈا کے دسترخوان اور ذائقہ جیسے بد ذائقہ چینل دیکھ دیکھ کر نکی کے دماغ پر ایسا اٹیک ہوا کہ بی بی نے اوڑھنا بچھوڑنا باورچی خانہ کو بنا لیا۔


 بڑی کے جا بجا منہ مارنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کی اداؤں کے اسیر گھر رشتے لے کر آنے لگے اور اگر کوئی بھولا بھٹکا نکی کا رشتہ آ بھی جاتا تو ایلدی کی تصویر دیکھ کر سوچتا کہ کھنڈر کا یہ حال ہے تو عمارت کیسی ہوگی اور ایلدی کی مالا جپنے لگتا۔یوں تو ایسے کمینے بھی آتے جو سوچتے کہ چکر بڑی سے چلا لیا ہےشادی چھوٹی سے کر کے زندگی سکون سے گزار لیں گے لیکن اللہ زندہ رکھے روایتی اماں جانوں کو انکو تو شہزادی چاہیے تھے اور اکبری کے لٹکے جھٹکے لڑکوں کے علاوہ اماں جان کو بھی مبہوت کر دیتے۔ظاہر ہے اصغری کو لیکر وہ اپنی لوکل گیدرنگ میں کیا بتاتیں کہ نوکرانی اٹھا لائیں انکو تو کرینہ کپور چاہیے تھی خواہ انکا بیٹا سیف خان کا نوکر ہی کیوں نہ لگے اور بعد میں کرینہ بی بی شرمیلا ٹیگور کو کان سے پکڑ باہر ہی کیوں نہ نکال دے۔ 

ادھر ایلدی بی بی ان اماؤں کی بھی اماں تھیں کسی پر نگاہ ہی نہ ٹکتی تھی۔تاہم اس سے قبل کہ وہ خواتین کی شیخ رشید بنتی روشن خیالوں نے انکی شادی اپنے سے بھی روشن خیالوں میں طے کر دی۔ویسے تو امیر فقط اپنے سے زیادہ امیر میں رشتہ کرتا ہےلیکن جب اماں جان راضی تو کیا کرے گاجہازی۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ایلدی کی شادی کی دیر تھی نکی کی بھی شادی ہوگئی حالانکہ اس میں نکی یا روشن خیالوں کا کرنا کچھ نہیں تھا۔لیکن کہانی جو چلنی تھی نکی کب تک باورچی خانہ سنبھالتی اور اگر وہ باورچی خانہ سنبھالی رکھتی تو اخلاقی سبق کون سنبھالتا۔

شادی کے بعد ایلدی نے اپنا انداز قائم رکھا اور چند دنوں میں ہی گھرکے تمام افراد اور ساتھ کے گھروں کے تمام افراد اس کے دیوانے ہو گئے۔نامحرم ہائے وائے کر کے جذبات ٹھنڈے کرتے اور محرم باجی بیٹا کہہ کر شوق پورا کر لیتے اور ویسے بھی یہ تو ویسے ہی کافی عرصہ سے روشن خیال تھے تو جب سیاں بنے روشن خیال ڈر کاہے کا۔ویسے تو گھر کی اور ہمسایوں کی خواتین بھی ایلدی سی تھیں لیکن وہ مولوی مدن سی بات کہاں تو انہوں نے بہتر سمجھا کہ ایلدی کو محاذ سنبھالنے دیا جائے اور ویسے بھی ہرجائی کی اچھی بات تو انہوں نے مہدی حسن کی زبانی سن رکھی تھی تو پریشانی کاہے کی۔گھروں کی بڑی بوڑھیاں ویسے ہی آؤٹ آف فیشن ہو چکی تھیں اگر پاکستان میں اولڈ ہاؤس ہوتے تو ان میں سے اکثر وہاں پائی جاتیں اور وہ خود اپنی بات نہ سن سکتی تھیں باقی کیا سنتےپس ایلدی کا راج پاٹ شروع ہوا جس میں دن عید اور رات شب برات بن گئی۔خزانوں کے منہ کھل گئے اور حصہ بقدر جثہ سب کی موج ہو گئی اور سب کے سب اپنے طور ہنسی خوشی رہنی لگے کہ شخصی آذادی دنیا میں بڑی کارآمد شے ہے۔

جبکہ ہماری دو نمبر ہیروئن نکی بی بی شادی کے بعد حسب معمول باورچی خانے میں گھسنے لگی لیکن ڈرامے کی ہیروئنوں کی طرح اس کی قسمت میں سکھ کم تھا تو اسکی ساس صاحبہ ذرا پرانے خیالات کی حامل تھیں وہ سمجھیں شاید یہ معدے کر زریعے میرے بیٹے پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے ظاہر ہے اماں جی سمجھتی تھیں کی دماغ کی عدم موجودگی میں معدے کے زریعے ہی قبضہ کیا جا سکتا ہے اور باورچی خانہ پر قبضہ کو انہوں نے اپنی مملکت برباد پر قبضہ کرنا سمجھا۔ ادھر شوہر صاحب جب نکی کو ایلدی سے تقابل کرتے تو انکو لگتا کہ کوئلوں کی دلالی تو کسی اور نے کی منہ انکا کالا ضرور ہوگیا۔اب کیا کریں ہر لنگور کو حور ہی چاہیے ہوتی ہے چاہے وہ حور اس کے سر پر ساتوں آسمان کیوں نہ گرا دے۔اماں نے اس صورتحال میں نکی کے شوہر نامراد کو بھڑکانا شروع کر دیا۔ارجمند صیب ویسے ہی اڑنے کے چکروں میں تھے تو وہ معصوم سی شکل بنا کر اماں کے قدموں میں چپ چاپ شریف بن کر سر ہلاتے رہے۔بس وہ دن اور آج کا دن نکی بیچاری دھکے کھاتی پھر رہی ہے اور اپنے ڈرامے کی آخری قسط کا انتظار میں ہے۔انتظار میں ہے کہ اماں جی باورچی خانے سے اگلے جہاں سدھاریں اور میاں صیب حالات کے جوتے کھا کر کچھ ٹھکانے واپس آئیں۔

 اخلاقی نتیجہ: اخلاق آج کل ہمارے معاشرے میں بری طرح فیل ہے