Italy aain? Bismillah-Italy aain? Mashallah-Prat II
پچھلے بلاگ میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ کیسے ہم اٹلی پہنچے اور کیسے راجہ صاحب نے بسم اللہ کی بجائے ماشااللہ کہہ کر ہمارا استقبال کیا۔ بہرحال فائدہ یہ ہوا فوٹو آدھے پہنچ گئے ہیں اور باقی آدھوں کی امید ہے۔ اب آگے پڑھیں۔
سلوینیا کا وعدہ تو وفا نہ ہو البتہ ہماری دلجوئی کو وہ ہمیں ادھر ادھر لیے پھرے۔ کہیں پیزاکھلایا تو کہیں سینڈوچ کھلایا۔ چند خواتین سے بھی ملاقات کرائی جو محض اطالوی بولتی تھیں اور ملاقات کے بعد میں سوچتا رہا کہ یہ ملاقات کرائی تھی یا ملاقات کی تھی۔
اس سے اگلے روز وہ ایک کانفرنس میں لے گئے کہ آئیں یہ غیرسرکاری کانفرنس دراصل اٹلی میں انگریزی بولنے والوں کا اکٹھ ہے۔اس اکٹھ سے مجھے وہ اکٹھ یاد آیا جس میں وہ ہمیں بسم اللہ والے پھیرے میں لے گئے تھے اور جہاں کم از کم تین چار سو طلبا وطالبات پالٹی بازی میں مصروف تھے۔اگرچہ وہاں پر ہم تماشائی تھے لیکن پالٹی کرتے طلبا و طالبات کے اتنے بڑے مجمعے کو دیکھنا بذات خود ایک پالٹی ہے۔
بہرحال اس نئی کانفرنس کے ہم تین شرکا تھے مجھ سے تو آپ واقف ہیں کہ انجان بندے کو اپنا نام بھی بڑی مشکل سے بتاتا ہوں کجا گپ شپ۔ اس کے بعد راجہ صاحب تھے جو ایسے بول بچن جانتے ہیں کہ بارہ گھنٹے کی کھڑے ہو کردکان پر نوکری کرتی خاتون بھی ان کی باتیں سن کر مسکرا اٹھتی ہے اور تیسرے تھے جناب میاں صاحب۔ خوش اخلاقی میں وہ اپنی مثال آپ ہیں اور بیرون ممالک میں پائے جانے والے پاکستانیوں کی خوبیوں سے مالامال بھی نہیں ۔ تاہم ان کی اصل خوبی اس سے بڑھ کر کیا بتاؤں کہ وہ دو بیویوں کے مالک پاکستان میں ہیں اور اٹلی میں ہر دوسری لڑکی خواہ جرمن ہو، رومانین ہو، اسپینی ہو، کروشئین ہو، سربین ہو یا پولش ہو ان کو جانتی ضرور ہے۔ اصل میں وہ ویسٹرن یونین میں کام کرتے ہیں کم و بیش بیس زبانوں میں جنس مخالف کے ساتھ کام چلا سکتے ہیں۔
جب اس نام نہاد کانفرنس میں پہنچے تو پتہ لگا کہ کل بیس بندے تھے جن میں چھ سات لڑکیاں تھیں اور وہ سب پہلے ہی بری طرح مخصوس کی جا چکیں تھیں۔دو گروپ بنے ہوئے تھے ایک میں نسبتاً معزز لگنے والے لوگ تھے دوسرے میں لڑکے لڑکیاں تھے۔ راجہ صاحب نے خود تو معززین کانفرنس کے ساتھ نشست سنبھالی اور ہمارے حصے میں آئے لڑکے بالے۔
راجہ صاحب نے تو جلد ہی اپنی گفتگو سے اپنے گروپ والوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور بابوں کو اپنی چُنی ہوئی آنٹیوں کے کھونے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔
ادھر ہمارے گروپ میں تمام لڑکوں کی نظر ایک فلپینی لڑکی پر تھی جو سولاریم (جہاں جا کر لڑکیاں بھاپ کے زریعے اپنا گورا رنگ سانولا کرتی ہیں) جا جا کر اپنا رنگ اور منہ خاصی حد تک کالا کرا چکی تھی اور اب جلی ہوئی نظر آتی تھی۔ چونکہ میں فلپینیوں سے دبئی میں اچھی طرح واقفیت حاصل کر چکا ہوں اس لیے میں نے اس بی بی کو دور سے ہی سات سلام کیے اور گروپ والوں کی پسند دیکھ کر بری طرح بیزار ہو گیا اور غم غلط کرنے کو ادرک کا مشروب طاقت(انرجی ڈرنک) پینے لگا۔
میاں صاحب دو لڑکیوں کے ساتھ جا بیٹھے اور چند ہی لمحوں میں دونوں لڑکیاں سیگرٹ پینے کے بہانے باہر اٹھ گئیں اب اللہ جانے میاں صاحب پاکستان کے دو والے تجربے کے پیش نظر باہر نہ گئے یا لڑکیاں ان سے تنگ ہو کر اٹھ گئیں۔
بہرحال جلد ہی کانفرنس والوں کو احساس ہو گیا کہ حالات قابو سے باہر ہوتے جارہے ہیں اور اگر ایسا چلتا رہا تو ان کو میسر آدھی ادھوری خواتین سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں گے تو وہ کھانا کھانے اٹھ گئے چونکہ ہم ان کے باقاعدہ ممبر نہ تھے اس لیے ہم اندر کھانے کے کمرے میں جانے کی بجائے بار سے باہر اٹھ آئے۔ مجھے پاکستان میں یونیورسٹیوں کا زمانہ یاد آ گیا جہاں لڑکیوں کی ایسے ہی چھینا جھپٹی ہوتی تھی اور ایک طرفہ محبت پر لڑائیاں ہو جاتی تھیں۔ مجھے اطالویوں کے شہدے پن پر یقین آ گیا اور راجہ صاحب کی تھیوری پر بھی کہ اطالوی اور پنجابی ایک جیسے ہی ہیں۔
اگلے روز راجہ صاحب نے مہربانی کی اور ہم آسیاگو کی طرف چل دیے۔آسیاگو ایک پہاڑی شہر ہے اور اس کو اٹلی کا سوئٹزرلینڈ بھی کہا جاتا ہے اور یہاں کا پنیر بھی خاصی شہرت کا حامل ہے۔ راستے میں ہم پہلے ماروستیکا Marostica گئے-ماروستیکا کی دو وجہ شہرت ہیں۔ ایک تو اس کی دیوار چین سی پہاڑ پر قائم شہر کی فصیل اور دوسرا انسانی شطرنج۔ سنا ہے کہ ایک زمانے میں یہاں کے بادشاہ کی بیٹی بڑی حسین تھی جو کہ ہمیں اطالوی خواتین کو دیکھ کر شک ہے بہرحال اس پر دو شہزادے عاشق ہو گئے یوں شک مزید مستحکم ہوتا ہے کہ پیسے والے لوگ ویسے ہی عقل سے پیدل ہوتے ہیں۔ ویسے بھی شہزادے عشق اور جنگ ہی کرتے آئے ہیں تو یہاں دونوں متحد ہو گئے اور اس سے قبل کہ دو ممالک میں شہزادی کو پانے کی خاطر جنگ چھڑ جاتی شہزادی کے ابا یعنی ماروستیکا کے حکمران کو تدبیر سوجھی اور انہوں نے تجویز پیش کی کہ بجائے اصلی لڑائی کے کیوں نہ شطرنج کی لڑائی ہو جائے۔ دونوں شہزادے راضی ہو گئے اور محل کے عین سامنے بڑا سارا شطرنج کا میدان بنوایا گیا جس میں انسان وہی کپڑے پہن کر مہرے بن گئے اور لگے مات اور شہ مات دینے۔خدا معلوم شہزادی کا کیا ہوا البتہ وہ میدان آج بھی وہاں قائم ہے اور اس میں ہر دو سال بعد تمام دنیا سے آئے ہوئے ماہر شطرنج بازیاں کھیلتے ہیں۔فرق یہ ہے کہ اب وہ شہزادیاں اپنے ہمراہ ہی لے آتے ہیں کہ میڈیا نے لڑکیوں کو ایسا بگاڑا ہے کہ چڑیلیں تک خود کو شہزادی سے کم سمجھتی ہی نہیں کجا گوریاں۔
یہاں سے ہم آسیاگو کی طرف نکلے۔ راجہ صاحب بجائے موٹروے سے جانے کے چھوٹے چھوٹے قصبوں سے گئے جس سے دیہی خوبصورتی دیکھ کر تمام گلے شکوے دھل گئے کہ جوگی کا نگر میں ٹھکانہ کیا۔ تمام شہر ایک سے ہی ہوتے ہیں اصل خوبصورتی تو شہروں سے باہر ہی ہوتی ہے۔
آسیاگو سطح سمندر سےایک ہزار میٹر بلند ہے اور پہاڑی علاقہ ہے۔ گویا پاکستان کا شمالی علاقہ سمجھیے۔ اوپر سے طرز تعمیر سوئش شہروں سی۔ زرد پتوں میں لپٹا شہر بے مثال خوبصورتی پیش کر رہا تھا۔
راستے میں راجہ صاحب نے کہا کیا آپ ٹائر کی آوازوں پر غور کر رہے ہیں؟ میں نے غور کرنے کی کوشش کی لیکن کانوں نے ساتھ نہ دیا تو اس پر راجہ صاحب نے فرمایا کہ اصل میں ان کو گاڑی پر اعتبار نہیں کبھی کوئی آواز آنے لگتی ہے کبھی کوئی جلنے کی بو سی کبھی کہیں سے دھواں سے اٹھتا ہے کبھی کوئی حصہ بہک سا جاتا ہے۔ پہاڑوں کی بلندی پر چڑھتے وقت یہ قصہ سن کر ہمیں اپنا بچپن یاد آگیا جب بتی جانے پر ہمارے بڑے کزن ہمیں ڈراونے قصے سناتے تھے اور ہم ڈر کے مارے نہ وہ محفل چھوڑ کر جانے کے قابل رہتے نہ مزید واقعات سننے کے قابل رہتے۔
آسیاگو میں جا کر ہم نے سوچا وقت کم ہے لہذا کہاں جایا جائے؟ کہاں نہ جایا جائے؟ قرعہ ایک جھیل کے نام نکلا اور ہم جھیل کی طرف چل پڑے۔ ایک گھنٹہ چل کر جب ہم پہنچے تو میں سمجھا شاید نقشے میں گربڑ ہوگئی ہے یا شہر والوں نے بھنگ پی لی ہے۔ جھیل کیا تھی ایک چھوٹا سا جوہڑ تھا جس کے گرد درخت لگے تھے اور ایک جھولا لگا تھا جس پر تین بچے جھولا جھول رہے تھے۔ سیف الملوک کی سی امیدوں پر اس جھیل کا میلا پانی پھر گیا۔ میں نے راجہ صاحب کی طرف دیکھا اور ہم دونوں چپ کر کے واپس ہو لیے۔ راستے میں ایک بوڑھا جوڑا بھی جھیل کی طرف جا رہا تھا اگر مجھے اطالوی آتی تو ان کو ضرور روکتا کہ ہم نے تو برداشت کر لیا ہے آپ سے یہ صدمہ شاید نہ سہا جائے۔ لیکن پھر خیال آیا انہوں نے کبھی کوئی شے دیکھی ہو تو ان کو پتہ بھی ہو جھیل کسے کہتے ہیں، سندھ دیکھا ہو تو پتہ لگے کہ دریا کسے کہتے ہیں، کے ٹو دیکھا ہو تو پتہ ہو کہ پہاڑ کسے کہتے ہیں ، دیراوڑ دیکھا ہوتو پتہ ہو کہ انفرادیت کیا ہوتی ہے۔ چلو جی اپنے چھپڑوں پر خؤش رہیں اس سے تو ہمیں اپنے دیہات کی نہر ہی اچھی لگی جس کے کنارے قسم قسم کے درخت لگے ہیں۔
بہرحال واپسی پر رات ہوگئی اور راجہ صاحب نے ہمیں بریشیا اپنے جاننے والوں کے پاس اتارا اور ہمیں ڈیڑھ یوم کے لیے ان کے حوالے کر کے اجازت چاہی کہ بھائی ہم کوئی آپ کی طرح فارغ تھوڑی ہیں اور بھی کام ہیں ہمیں۔
یوں بسم اللہ دورے کے بعد ماشا اللہ دورے کا اختتام ہوا لیکن ہم راجہ صاحب کو بتائے دیتے ہیں کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ہم سے پیچھا ایسے چھوٹ جائے گا تو یہ ان کی بھول ہے ہم بھی پاکستانی ہیں اور جب جب موقع ملے گا ان کے پاس جا دھمکیں گے چاہے وہ بسم اللہ کریں، ماشااللہ کریں یا استغفراللہ کریں اب تو مصیبت مول لے لی ہے کیا کیا جا سکتا ہےکہ اگر پادوا رہ کر سارا اٹلی نہ دیکھا تو کچھ نہ دیکھا۔
جب واپس ایسٹونیا Estonia پہنچا تو میں نے دو روز بعد کے لیے فن لینڈ Finland کے لیے بحری جہاز کی ٹکٹ خریدی ہوئی تھی کہ اپنے قارئین کو فن لینڈ کے دارالحکومت ہیلسنکی Helsinki کا احوال بھی پیش کیا جائے لیکن تالن Tallinn پہنچنے پر ای میل ملی کہ سمندری طوفان کے پیش نظر تمام بحری جہازوں کی آمد و رفت منسوخ کر دی گئی ہے لہذا آکر اپنے پیسے لے جائیں۔
ہم نے اگلے دن جا کر 38 یورو وصول کیے اور سوچا کہ تین چار روز بعد کی بکنگ کرائی جائے لیکن دوسرا خیال آیا نہ ہیلسنکی کہیں بھاگا جا رہا ہے اور نہ ہی بحری جہاز ٹائٹینک Titanic ہے جو ڈوب جائے گا ہمیشہ کے لیے ۔ لہذا بہتر ہے دورہ مارچ ، اپریل تک منسوخ کر دیا جائے کہ تب تک دن لمبے ہو جائیں گے اور کچھ دیکھنے کو بھی ملے گا کہ سردیوں میں تو یہاں چار بچے مغرب ہوجاتی ہے۔
یوں سمندری طوفان کی مہربانی سے ملنے والے 38 یورو سے ہم نے کھانے پینے کا سامان خریدا اور ایک ہفتے میں دو ملکوں سے ہاتھ دھو کر لوٹ کر بدھو مُستمائے Mustamäe (تالن کا وہ حصہ جس میں میں رہتا ہوں) واپس آئے۔
اس سے قبل اسی سلسلے میں آپ پڑھ چکے ہیں۔
آسیاگو کی تصاویر کے لیے نیچے دیے گیے لنک پر کلک کریں۔