جب میں ماس کمیونیکشن میں ماسٹرز کر رہا تھا تو تب میں نے اور میرے چند دوستوں نے ملکر ایک آڈیو ڈرامہ بنایا تھا جس کو تحریر میں نے کیا تھا- بعد میں ہم نے تین چار کلاسوں میں ڈرامے کو پیش کیا اور اس پر لوگوں کے تاثرات و تنقید سنی اور حتی المقدور جواب دینے کی کوشش کی- اب تنقید تو ایسے ہی تھے کہ آپ کچھ پڑھے بغیر کسی کتاب پر تبصرہ سن کر اس پر تنقید کرنا چالو ہو جائیں کہ آدھے سے زیادہ لوگوں نے کبھی زندگی میں آڈیو یا صوتی ڈرامہ سنا ہی نہیں تھا کجا اس کی تکنیکی خامیاں پکڑنا لیکن آفرین ہے کہ نوے فیصد لوگوں نے کھل کر تنقید کی –
ویسے تو میں ڈرامہ بنانے بارے مشکلات ایک بلاگ میں لکھ چکا ہوں لیکن یہ بلاگ اس لیے لکھ رہا ہوں کہ ڈرامے پر ایک بڑی تنقید یہ بھی تھی کہ ڈرامے میں اشعار کی بہتات ہے کہ میں نے ڈرامے میں کئی جگہوں پر غزلیں اور نظمیں ( میری نہیں بلکہ بڑے شعرا کی) استعمال کی تھیں۔
تاہم چونکہ میں بھی اپنی مثال آپ ہوں اس لیے میں نے سوچا بچو تمھیں کیا پتہ اور سب کی تنقید کو سرسری لیا تاہم حال ہی میں ہندی فلم اے دل ہے مشکل دیکھنے کے بعد مجھے دوبارہ اپنا ڈرامہ یاد آگیا۔ (یاد رہے کہ فلم بھی پچھلے سال آئی تھی اور ہم نے یہ بلاگ بھی کافی عرصے سے لکھ کر رکھا تھا)
فلم کی کہانی تو انتہائی بکواس اور واہیات ہے کہ ایک ہندو لڑکے(رنبیر کپور) کو مسلمان لڑکی (انوشکا شرما) سے محبت ہوجاتی ہے لیکن وہ کسی اور مسلمان لڑکے (فواد خان) سے محبت کرتی ہے اسی دوران ہیرو صاحب ایک مسلمان شاعرہ (ایشوریہ رائے) سے ملتے ہیں جو ان پر لٹو ہو جاتی ہے اور یوں وہ دونوں اکٹھے رہنے لگ جاتے ہیں (ہندی فلموں میں اسی کو پیار کہتے ہیں آج کل)- بہرحال ان شاعرہ صاحبہ کو جب یہ پتہ چلتا ہے کہ ہیرو صاحب اصل میں اسی عطار کے لونڈے پر جان دیتے ہیں تو وہ ان کو گھر سے نکال دیتی ہے اور آخر میں ہیرو صاحب انہی بی بی کے پاس چلے جاتے ہیں جو کہ اپنی اولین محبت (فواد خان) کا مزہ چکھ کراس سے طلاق لے چکی ہوتی ہے۔
بہرحال اسی مادر پدر آزاد محبت کے زمانے میں اردو شاعرہ کو دکھانا اور فلم کا کامیاب ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بھارت جیسے ملک میں بھی اردو شاعری کو ایک طبقہ پسند کرتا ہے بھلے اس شاعرہ کی کتاب انگریزی کتب کی طرح بائیں طرف سے شروع ہوتی ہے اور اس کے اردو ڈائیلاگ گاڑھی اردو کے چکر میں کئی جگہوں پر مطب کے دائر سے باہر مٹر گشت کرتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں جہاں آج بھی کچھ لوگ غزل پسند کرتے ہیں اور اب تو پاپ سنگر (علی حیدر، علی ظفر، سجاد علی وغیرہ) بھی پاپ البم میں ایک آدھ غزل ڈال دیتے ہیں تو ڈرامے میں شاعری کو کیا مشکل ہے-
شاعری ہماری ثقافت ہے، ہمارا کلچر ہے بھلے ہم مشاعروں اور شاعروں کا مذاق اڑائیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک وقت میں ہم نے بڑے شاعر پیدا کیے ہیں- لیکن جیسے باقی ہر اس شے کو زوال آیا ہے جس میں پیسہ کمانے کا چکر نہ ہو ایسے ہی شاعری، ادب اور ثقافت اور دیگر معاشرتی ستون بھی زوال پذیر ہیں-
میڈیا پڑھنے کے بعد اور دیکھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میڈیا تھیوری جو کہ ہمیں پڑھائی گئی تھی کہ "عوام کو وہ دکھائیں جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں" کی بجائے عوام کو جو دیکھائیں گے وہ دیکھیں گے زیادہ مناسب ہے اور اسی پر میرا اعتبار ہے کہ اگر میڈیا کسی بھی شے کی بہتری کا سوچ لے تو وہ بہتر ہو سکتی ہے- منا بھائی ایم بی بی ایس فلم کے بعد بھارت میں گاندھی گیری کی لہر یا مار کٹائی والے سیاسی مباحثوں کی پاکستان میں مقبولیت اس بات کی گواہ ہے-
تو اے دل ہے مشکل دیکھ کر مجھے اپنے دس سال پرانے ڈرامے پر مزید فخر ہوا کہ کمرشل ازم کے ساتھ ساتھ کسی اچھی شے کا ذکر ہو تو کیا برا ہے۔
Mera audio drama aur Ae Dil Hai Mushkil film main shairi