دنیا بھر میں پی ایچ ڈی PhD ایک معزز ڈگری سمجھی جاتی ہے- اکادیمیا Academia یعنی تعلیم سے منسلک شعبے میں یہ قابلیت کی معراج سمجھی جاتی ہے- معزز اس تناظر میں کہ یہ ایم بی بی ایس کیے بغیر واحد راستہ ہے جس کے آخیر میں آپ ڈاکٹر کہلانے لگتے ہیں اور معراج اس طرح کہ یہ آخری تعلیمی ڈگری ہے جو حاصل کی جاسکتی ہے- پی ایچ ڈی یعنی ڈاکٹریٹ آف فلاسفی دراصل ایک تحقیقی ڈگری ہے جو آپ کو تب ملتی ہے جب آپ کچھ نیا دنیا کے سامنے لائیں خواہ وہ انسانی زندگی کی بہتری سے متعلق ہو یا کسی مضمون بارے نئی منطق پیش کرے-
تاہم چونکہ پاکستان میں ہر معاملہ کی منطق نرالی ہے اس لیے یہاں پی ایچ ڈی اور ڈاکٹر حضرات بھی اسی نرالے پن میں پھنسے ہیں- جب پاکستان میں پی ایچ ڈی شروع ہوئی تو اکثر لوگوں نے لے دے کر، ممتحن کو خوش کر کے، مقالے چوری کر کے لکھے اور پی ایچ ڈی کرکے پروفیسر بن بیٹھے-
جب مشرف دور میں عطاالرحمن صاحب ایچ ای سی کے چیرمین بنے تو وہ یہ بات بخوبی جانتے تھے جس کی وجہ سے کریک ڈاؤن کیا گیا اور کئی پروفیسر حضرات پکڑ میں آگئے اور کئی تعلقات کی بنا پر بچ بھی نکلے تاہم اس زمانے میں اکثر یہ خبر پڑھنے کو ملتی تھی کہ فلاں پروفیسر کی ریسرچ چوری شدہ نکلی فلاں پروفیسر کی ڈگری جعلی نکلی وغیرہ وغیرہ-
تب نئے مگر نسبتاً مشکل قوانین بنائے گئے جن سے پی ایچ ڈی کرنے والوں کو پہلی بار دنیا کا سامنا کرنا پڑا- لیکن ہم پاکستانی جگاڑ میں ماہر ہیں لہذا یہاں بھی کچھ نہ کچھ طریقہ کار ڈھونڈ لیا گیا –
تاہم پی ایچ ڈی کا اصل مقصد جو کہ تحقیق تھا وہ بدستور غائب ہی رہا- تھیسز سے متعلق مقالے/آرٹیکل سب اسٹینڈرڈ جرنلز میں چھاپنے کی اجازت دے دی گئی جبکہ یورپ میں پی ایچ ڈی تھیسز تب ہی عوامی ڈیفنس کے لیے جانے کی اجازت دی جاتی ہے جب تک اس سے متعلق ریسرچ ویب آف سائنس سے منظور شدہ جرنل میں نہ چھاپی جائے-
اب ویسے تو ویب آف سائنس میں جنرل منظور کرانا کوئی ایسا انوکھا یا ناممکن مرحلہ نہیں لیکن جب کام چل رہا ہے تو کون تکلیف کرے۔ مزید یہ کہ یورپ/امریکہ میں جس چیز میں ریسرچ کی جاتی ہے پی ایچ ڈی وہی مضمون پڑھاتا ہے اس سے پڑھائی میں بھی جدت آتی ہے اور اس کا کوئی مقابل بھی نہیں رہتا- یعنی کہ مارکیٹنگ تو کوئی بھی کتاب سے پڑھ کر پڑھا سکتا ہے لیکن جو بندہ ایگری کلچر مارکیٹنگ Agricultural marketing پر پی ایچ ڈی کرے گا وہ پی ایچ ڈی کے بعد ایگری کلچر مارکیٹنگ ہی پڑھائے گا، جو ای مارکیٹنگ E-marketing پر تحقیق کرے گا وہ ای مارکیٹنگ ہی پڑھائے گا اور اس میں بھی فوکس اس کی ریسرچ پر رہے گا- ایک ہم ہیں کہ جو ڈگری پر لکھا ہے اس سے ایک لفظ ادھر ادھر نہیں ہونا خواہ بندے نے ریسرچ دفاعی منیجمنٹ Defense managementپر کی ہو لیکن پڑھائے گا وہ اکنامکس-
بہرحال نتیجہ یہ نکلا کہ پی ایچ ڈی کرنے والے ریسرچ جو کہ انکا اصل مقصد تھا سے بے بہرہ رہ گئے اور باقی رہ گیا پڑھانا وہ تو بی اے پاس بھی ایک آدھ سال کے تجربے کے بعد اچھا پڑھانا شروع کر دیتا ہے-جس سے یہ ہوا کہ پی ایچ ڈی ہونے نہ ہونے سے ڈپارٹمنٹ پر کوئی خاص فرق نہ پڑا اور سفارش و اقربا پروری کے مارے پروفیسروں نے اپنے منظور نظر طلبہ، رشتہ داروں کو آگے لانا شروع کرنا شروع کر دیا-
میرے ذاتی مشاہدے میں ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں ایم اے مکمل ہونے سے قبل ہی منظور نظروں کو وزٹنگ پر پڑھوانا شروع کردیا گیا۔
ایم فل آیا تو اس کو حقیقی معنوں میں 'یونیورسٹی میں دو سال مزید' بنا کر رکھ دیا گیا- اگر آپ ایم فل کے تھیسز کا جائزہ لیں تو ایسے ایسے شاہکار ملیں گے کہ بندہ پڑھنے پڑھانے سے بددل ہو جائے-
پاکستان میں پی ایچ ڈی کیسے ہورہا ہے دو مثالیں پیش ہیں جن کا میں عینی شاہد ہوں
ایک لڑکے نے پی ایچ ڈی کر لیا تو اس کے والد نے پاکستان کی چند یونیورسٹیوں کے اسی مضمون کے پروفیسرز کو دعوت دی جو کہ انہوں نے اس لڑکے کی خالہ جو کہ اسی مضمون کی چیرپرسن تھیں کی وجہ سے قبول کر لی گئ - ایسے ہی ایک پروفیسر کو وہ لڑکا ہوائی اڈے سے لینے گیا تو ان کے درمیان ایسی گفتگو ہوئی
پروفیسر صاحب "بیٹا آپ نے پی ایچ ڈی کی ہے؟'
لڑکا "جی"
پروفیسر صاحب "ماشااللہ ماشاللہ ، آپکا ٹاپک کیا تھا؟"
لڑکا "فلاں فلاں فلاں"
پروفیسر صاحب" اچھا ماشااللہ - آپ نے ریسرچ کس طریقہ کار کے تحت کی"؟
لڑکا" جی نہیں پتہ"
پروفیسر صاحب "اچھا یوں کہیں نہ آپ کی جگہ کسی اور نے کی ہے"؟
لڑکا "جی"
پروفیسر صاحب "ماشااللہ ماشااللہ۔
دوسری مثال ایک خاتون کی ہے جو ایک ایسی دکان پر گئیں جہاں پی ایچ ڈی، ایم فل پر تھیسز مل جاتے ہیں اور جب دکان والوں نے دس لاکھ مانگے تو وہ رونے لگیں کہ وہ غریب خاتون ہیں کچھ رعایت کی جائے تو معاملہ پانچ لاکھ میں طے پا گیا- اس کے بعد جب دکاندار نے موضوع وغیرہ پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے کچھ نہیں پتہ- جس پر دکاندار نے انہیں کہا کہ چلیں میں ہی کچھ ڈھونڈ دیتا ہوں- یاد رہے اس قیمت میں ایک آرٹیکل اور ایک تھیسز شامل ہے-
لیکن اس میں پی ایچ ڈی کرنے والوں کا قصور کم اور کروانے والوں کا زیادہ ہے- ایک پرائیویٹ یونیورسٹی جس کو ڈبلیو کیٹیکگری سے نوازا ہوا ہے میں ایم فل میں تھیسز کرانے کے لیے ایک ہی پروفیسر صاحب ہیں جو کہ یونیورسٹی میں پارٹنر بھی ہیں- اپنے علاوہ وہ کسی اور پی ایچ ڈی کو رکھتے نہیں کہ ایک تو پیسے بھرنے ہوں گے دوسرا تھیسز کی آمدن میں بھی کمی کا امکان ہے تو اکنامکس سے نفسیات، منیجمنٹ سے اسلامیات سب کا سپروائز ایک ہے تو ایچ ای سی آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے؟
پرائیویٹ یونیورسٹیوں کی کہاںیاں زبان زد عام ہیں لیکن ایچ ای سی ان سے بے بہرہ ہے- ایچ ای سی کی فائلوں کا پیٹ بھرنے کو انہوں نے گورنمنٹ یونیورسٹیوں کے پروفیسرز حضرات کو معمولی مشاہروں/ دوستی یاری پر اپنی فیکلٹی لسٹ میں ڈال رکھا ہے اور پڑھانے کا سارا کام ماسٹرز اور ایم فل خواتین حضرات سے چل رہا ہے-
شاید آپ کی نظروں سے گزرا ہو کہ پی ایچ ڈی ڈاکٹران نے اسلام آباد میں احتجاج کیا کہ ان کو نوکریاں دینے کا کوئی سلسلہ بنایا جائے- ایچ ای سی کا جواب تھا کہ صرف 'چالیس' پی ایچ ڈی تو کل بے روزگار ہیں اور اگر پی ایچ ڈی کے بعد بھی وہ لوگ نوکری نہ حاصل کرسکیں تو یہ انکا قصور ہے کہ ان کی تعلیم میں ہی کوئی کمی رہ گئی ہو گی- لیکن ایچ ای سی یہ نہیں سوچتی کہ اگر وہ چند پی ایچ ڈی (ہر سال پی ایچ ڈہی میں داخلہ لینے والوں کی تعداد پانچ سو سے زیادہ نہ ہوگی) بھی اچھی کوالٹی کے پیدا نہیں کرسکتے تو باقی کورسز کے طلبہ کا تو اللہ ہی حافظ ہے-
ایچ ای سی نے ایک احسن اقدام یہ اٹھایا کہ پی ایچ ڈی کرنے والوں کو آئی پی ایف پی IPFP یعنی عارضی ملازمت برائے پی ایچ ڈی کے نام سے ایک سال کا کنٹریکٹ دینا شروع کیا- لیکن یہاں تک تو بڑا اچھا لگتا ہے کہ جیسے آپ پی ایچ ڈی کریں گے آپ ایک فارم فل کریں جس میں اپنی پسند کی یونیورسٹیوں کے نام دیں جہاں آپ نوکری کرنا چاہتے ہیں اور وہاں آپ کی پڑھانا شروع کردیں- لیکن جب آپ کو یونیورسٹی والے بلاتے ہیں اور عزت افزائی کرتے ہیں تو آپ حقیقت میں واپس آجاتے ہیں- اندازہ لگائیں کہ کنتریکٹ ایچ ای سی دے رہا ہے، پیسے وہ دے گا، ملازمت بھی عارضی ہے، بندہ بھی پی ایچ ڈی ہے لیکن آگے یونیورسٹی میں بیٹھے چیرمین صاحب کو پھر بھی آپ کو نوکری دینے سے انکاری ہیں اور انٹرویو کے نام پر آپ کی ایسی عزت افزائی کرتے ہیں کہ آپ کو خود شک ہونے لگتا ہے کہ ڈگری جعلی تو نہیں۔
میں ایک ایسے ہی شخص کو جانتا ہوں جو باہر سے پی ایچ ڈی کر کے آیا اور آئی پی ایف پی کے تحت ایک ایسے ڈپارٹمنٹ میں درخواست دی جہاں پروفیسر تو کیا ایک لیکچرار بھی مستقل نہیں تھا لیکن اس کے باوجود اس کو امریکہ پلٹ وی سی صاحب نے اس ڈپارٹمنٹ میں نہیں رکھا- ایک مثال یہ بھی ملاحظہ ہو کہ یورپ میں تو بہترین ریسرچر کا ایوارڈ مل رہا ہے اور اپنے ملک میں داخلہ بھی نہیں- جہاں یہ حال ہو وہاں وہ لوگ کیسے واپس آتے جنکو ایچ ای سی نے اپنے پیسوں پر باہر پڑھنے بھیجا تھا وہاں وہ ملازمتیں ٹھکرا کر یہاں دھکے کھانے کیوں آتے جہاں بات بات پر خوشامد اور تعلقات کا سکہ چلتا ہو- کبھی اندر کی بات کھول کے دیکھیں ایک سے ایک کہانیاں ہیں- ایچ ای سی گذشتہ سالوں میں رشتہ داروں کا تناسب ہی ماپ لے تو اقربا پروری کا پول کھل جائے گا کہ اولاد، بہن بھائی، داماد بہو، بھانجے بھتیجے سب بھرتی ہورہے ہیں-
جب ایچ ای سی کنٹریکٹ دے رہی تو کیا یونیورسٹیوں کو پابند نہیں کر سکتی کہ ان کو ہر حال میں رکھنا ہے؟ خود ایچ ای سی حکام کے الفاظ میں ہزار ہا سیٹیں خالی ہیں لیکن انکو صرف چالیس پی ایچ ڈی نظر نہیں آرہے جو بے روزگارگھوم رہے ہیں- اور وہاں بیٹھے لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے کہا تھا پی ایچ ڈی کرو-
مختصر یہ کہ جب تک ریسرچ کو فروغ نہیں ملے گا تب تک پی ایچ ڈی پاکستان میں دھکے کھائے گا کہ یہی وہ مقام ہے جہاں وہ ماسٹرز اور ایم فل کو شکست دے سکتا ہے- دوسرا یہ کہ ایچ ای سی کو بھی خود سے قدم اٹھانے ہوں گے جیسے پرائیوٹ یونیورسٹیوں میں اس بات کو لازم بنایا جائے کہ ہر ڈپارٹمنٹ میں کم از کم دو پی ایچ ڈی مستقل بنیادوں پر تعنیات ہوں (اس طرح پرائیوٹ یونیوسٹیوں کا یہ حربہ کہ کنٹریکٹ پر ایک پی ایچ ڈی رکھ کر باقی کلاسیں ایم فل یا ماسٹرز حضرات سے پڑھوانے کا بھی تدارک ہوگا)
IPFP پروگرام میں جب ایک مقرر کردہ وقت کے بعد درخواست کنندہ کی یونیوسٹیاں جواب نہ دیں یا انکار کر دیں تو ایچ ای سی ان کی خود سے کسی یونیورسٹی میں تعنیاتی کر دے اور اگر ممکن ہو تو ان کے کنٹریکٹ کی مدت بھی بڑھائی جائے- اس طرح ایسے چیرمین حضرات جو سیاہ و سفید کے مالک بنے بیٹھے بھی قابو ہوں گے کہ عام طور آئی پی ایف پی میں منظوری چیرمین دیتا ہے اور سب اختیار چیرمین کے ہاتھ میں ہی ہے کہ وہ بھلے آج بھی ماسٹرز کیا بیچلر پاس لوگوں کو لیکچر دیتا رہے-
تو پی ایچ ڈی ڈاکٹروں کے احتجاج کے باجود ایسا ہوتا مستقبل قریب میں تو نظر نہیں آرہا کہ پی ایچ ڈی کرتے ہی آپ کو بغیر کسی سفارش، دھکے کے کہیں نوکری مل جائے۔ اب تو ایک قدم مزید آگے کے مصداق آئیندہ سے وی سی کے لیے پی ایچ ڈی ہونا بھی ضروری نہیں بس سیاسی دوستی یاری سے کام چلایا جائے گا۔
لہذا آپ جان چکے ہیں کہ پی ایچ ڈی کیوں نہ کریں ہاں اگر آپ کے کسی ڈپارٹمنٹ میں تعلقات ہیں، کسی کے منظور نظر ہیں، کہیں پہلے سے ہی سیٹ ہیں تب ضرور کریں کہ پھر آپ مندرجہ بالا سب باتوں سے بالاتر ہیں یا یہ کہ باہر چلے جائیں اور پی ایچ ڈی کے بعد ملک واپسی کہ نہ سوچیں تو بھی پی ایچ ڈی کرنا آپ کے لیے خسارے کا سودا ثابت نہ ہوگا۔ باقی رہے نام اللہ کا---
PhD qiyon na karain