September 7, 2018

طلب چا


لڑکا دراز قامت ہو، صاف رنگت رکھتا ہو، سیگرٹ کا کش لگاتا ہو،سلنسر نکال کر بائیک اڑاتا ہو، رنگین کار کا مالک ہو، میٹھی باتیں کرتا ہو اور سیاہ کافی پینے کا شغف رکھتا ہو تو ایسے لڑکے جنس مخالف میں خاصی مقبولیت حاصل کر لیتےہیں- 


اللہ جانے کس خدا مارے نے یہ درفطنی چھوڑی تھی اور کہاں سے ہم تک پہنچی لیکن پہنچنے کے بعد ہم دل مسوس کر رہ گئے کہ یعنی ہم ناں ہی سمجھیں۔ اب کیا بتائیں کہ قد بھی ٹھگنا اور رنگت ایسی پکی کہ تانبا – سونے پر سہاگہ ملتان کی دھوپ میں پک پک کر تانبا سریا بن چکا- سیگرٹ اور نوشی دونوں کو دیکھتے ہیں تو بازو کو سہلانے لگتے ہیں جو کہ بہ کریڈٹ والد صاحب عرصہ ایک ماہ گرفتار پلستر رہا تھا کہ اس ناہنجار بازو سے منسلکہ ہاتھ میں سیگرٹ تھاما دیکھا گیا تھا- سلنسر نکلا ہو یا جڑا ہو بائیک کو ہم ایک ہی صورت چلا سکتے ہیں جب اس کو پکڑ کر ساتھ ٹہلا رہے ہوں- رنگین و بلیک اینڈ وائیٹ کار کی ملکیت کا یہ حال ہے کہ سات بندے ہیں ایک کار ہے یعنی ہمارے حصے میں تو ایک سیٹ بھی نہیں آتی- بات کرنے کا یہ احوال ہے کہ سلام دعا اور حال احوال کے بعد ہمارا ذخیرہ الفاط ایسی جگہ گھاس چرنے چلا جاتا ہے جہاں پچھلی سات نسلوں نے گھاس کی شکل تک نہیں دیکھی- لے دے کر ہمارے پاس ایک ہی حربہ بچتا تھا اور وہ تھا سیاہ کافی کا- آج کا بلاگ اسی چائے/ کافی کی کہانی ہے۔ چائے کو چا بھی کہتے ہیں اور مجھے تو پسند چا ہی ہے کہ چا کی چاہ ہے- لہذا یہاں پر جہاں ادبی گفتگو ہے وہاں چا پڑھیں اور عام آدمی کی جگہ پر چائے- باقی کافی تو کافی ہے کہ قہوہ بھی ہمارے ہاں بنا چینی و دودھ والی چائے ہی قرار پاتی ہے- 

الحمدللہ اچھے وقتوں میں پیدا ہوئے جب والدین اور بچوں کے دونوں کے پاس وقت کی فراوانی ہوا کرتی تھی اور والدین وہ وقت بچوں کو مسلسل ٹوک کر اور بچے وہ وقت والدین سے چھپ کر ہر وہ کام سے والدین ٹوکتے ہیں کرنے کی کوشش میں گزارا کرتے تھے- ان دنوں بہت سی اشیا جو آج حلال بلکہ عین عبادت ہیں اس زمانے میں حرام قرار دی جاتی تھیں اور ان میں سے ایک بچوں کا چائے پینا بھی تھا- یاد رہے کافی تو تب فقط لاہور یا کراچی میں چند دکانوں پر ہی ملتی تھی۔

اب ہم نسبتاً اچھے بچے تھے اس لیے چائے کے پاس بھی نہ بھٹکتے تھے کہ اس میں اس زمانے میں چائے پینے میں دوسرا نقصان یہ بھی تھا کہ یہ رنگ کالا کرتی تھی- اب ہمارا رنگ تو پہلے ہی سیاہی مائل تھا ہمیں یہ خطرہ بھی ساتھ لاحق رہتا کہ خدا معلوم چائے پی کر یہ رنگ کیا رنگ اختیار کر لے تو جب بھی چائے آتی ہم معذرت ہی کر لیتے اور کراماً کاتبین کو اطلاع بہم پہنچانے خاطر دل ہی دل میں والدہ کا کہا دہراتے کہ 'چائے بچوں کے لیے اچھی نہیں'- 

کافی عرصہ بعد جب میں تھوڑا بڑا ہوگیا تو ایک روز والد صاحب کی صحبت میں بیٹھا تھا – وہاں ایک صاحب اپنا قصہ سنانے لگے کہ کل وہ کسی بڑے ہائی فائی شخص سے ملے تو انہوں نے چائے کی پیشکش کی جسے ان صاحب نے ٹھکرا دیا کہ معذرت وہ چائے نہیں پیتے- اس پر والد صاحب نے فرمایا کہ ویسے تو آپ کا ذاتی معاملہ ہے مگر ایسی جا چائے نہ پینا بد زوقی و بد تمیزی کے زمرے میں آتا ہے کہ دانشوروں (اس زمانے میں یہ مخلوق واقعی پائی جاتی تھی) کی ایک پہچان میں ان کا چا پسند ہونا بھی ہے- پھر انہوں نے مولانا آزاد کی کتاب میں سے اقتباس بھی سنائے جس میں چا کی اور خصوصاً اصل چا کی تعریف کی گئی تھی اور دیسی چا کو فقط بیماری قرار دیا گیا تھا- کتاب تو میں نے بھی پڑھ رکھی تھی پر ہم مولانا آزاد کے مقعدی نہ تھا- اب مولانا کے مقتقد بھلے نہ ہوتے والد صاحب کے تو تھے 
بس مومن کی فراست ہو تو چا (کافی) ہے اشارا- 

اس روز سے ہم نے فیصلہ کر لیا کہ آج کے بعد ہمیں کسی نے بھی چائے کی پیشکش کی تو ہم قطعاً نہ ٹھکرائیں گے پر سوال یہ ہے کہ ہم سے گھر میں کسی نہ یہ نہ پوچھا کہ کھانا کھاؤ گے یا نہیں باہر کون چائے جیسی عیاشی (اس زمانے میں یہ عیاشی ہی تھی- آج کا سا ماحول نہ تھا کہ آنکھ کھلتے سے بند ہونے تک بچے ، جوان ، بوڑھے غٹا غٹ چائے کے کوپ چڑھائے جا رہے ہیں) پوچھتا- جب کسی نے نہ پوچھا تو ہم نے خود ہی ایک قدم آگے بڑھ کر چائے کو اپنا لیا اور اب کبھی کبھار چائے بھی پینے لگے- تاہم کافی اب بھی شجر ممنوعہ ہی تھا کہ ایک آدھ بار بڑوں کے ساتھ لاہور یا مری کے مال روڈ پر کافی پی بھی گئی تو ہم جیسے بچوں کو اس سے دور ہی رکھا گیا- 

پھر ہوا یوں کہ ہم یورپ سدھار گئے- اور قسمت ہمیں ملتان سے اٹھا کر پولینڈ و اسٹونیا لے گئی گویا عطارد سے آپ کو پلوٹو بھیج دیا جائے- سردیاں آئیں تو جیسے پاکستان میں پانی پیا جاتا تھا ویسے وہاں چائے و کافی پی جانے لگی-  چونکہ ہم بھی پاکستانی ہی تھے اور پاکستانی کی بیرون ملک پہچان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپنا دیسی کھانا پینا نہیں چھوڑتا- اسٹونیا میں منفی تیس میں بھی پاکستانی اس سوچ میں رہتے ہیں کہ آٹا گوندھنا ہے روٹی پکانی ہے، پیاز مہنگا ہو گیا ہے اس کے بغیر سالن کیسے پکائیں، چائے کے لیے خالص دودھ کہاں سے لیں کہ آمیزہ سفید (وائیٹنرWhitener) اور ڈبے والے دودھ سے چائے میں وہ ذائقہ نہیں آتا، لسی میٹھی ہو وغیرہ وغیرہ تو ہم بھی پاکستانی چائے چلاتے رہے لیکن ایک روز چائے پی تو معدہ میں درد سا اٹھا- جب اگلے چار پانچ کپ کے بعد بھی وہ درد برقرار رہا تو تجربہ کے طور پر بغیر دودھ والی چائے پی گئی اور وہ بغیر دودھ والی چائے بغیر درد والی چائے بھی ثابت ہوئی۔ بس وہ دن اور آج کا دن چائے ہو یا کافی دودھ کا تکلف نہیں کیا گیا- دودھ چھوٹا تو پاکستانی عادات بھی ایک ایک کرکے چھوٹتی چلی گئیں اور میں پاکستانی کھانوں کی طلب سے آزاد ہوتا چلا گیا- 

سردی آئی تو کافی ساتھ لائی- ایک کپ باہر نکلنے سے پہلے اور ایک کپ واپسی پر- اب یاد آئے تیرے پیکر کے خطوط یعنی وہ نکات جن کا ذکر سب سے پہلے کیا گیا ہے اور ہم نے آہستہ آہستہ کوشش کر کے چائے میں چینی سے بھی چھٹکارہ حاصل کر لیا البتہ کافی کڑوی منہ میں نہ رچ سکی اور اب بھی کافی میں چینی شدہ ہی پسند ہے- 

اگر آپ نے مظہرالاسلام کو پڑھ رکھا ہے تو اچھی بات ہے نہیں پڑھ رکھا تو اس بھی اچھی بات ہے کہ ان کی کتب کے نام ہی سر چکرانے کو کافی ہیں کہ 'گڑیا کہ آنکھ سے شہر کو دیکھو' یا گھوڑوں کے شہر میں اکیلا آدمی' تو ان کی ایک کہانی میں ہیرو اس لیے خود کشی کرنا چاہتا ہے کہ شہر میں اس کی پسند کے سیگرٹ ملنا بند ہوجاتے ہیں- آپ سوچیں گے اب ویسے تو کیا فرق پڑتا ہے ہے یہ بھی خود کشی وہ بھی خود کشی فقط مدت کا فرق ہے- اس زمانے میں میں بھی یہی سوچا کرتا تھا لیکن پھر میں یورپ تیاگ کر وطن واپس آگیا- اب وہاں پر چائے یہ لپٹن ، ٹپال نہیں تھی بلکہ پتہ یہ چلا کہ دنیا میں چائے کے تین ہزار سے زائد زائقے پائے جاتے ہیں اور تین ہزار میں سو ڈیڑھ سو تو میں نے بھی چکھ لیے تھے تو اب میری پسندیدہ چائے احمد ٹی Ahmad Tea، ٹوینینگس Twinings اور دلماہ Dilmah تھی- ارل گرے Earl Grey، لیڈی گرے Lady Grey، بریکفاسٹ ٹی Breakfast tea اور اویننگ ٹی Evening teaجیسی چا ہماری دسترس میں رہا کرتی تھی- 

پاکستان واپس آیا تو پتہ چلا کہ خلیل میاں کے فاختائیں اڑانے کے دن گزر چکے پر چاہ سے تو کچھ بھی مل سکتا ہے یہ تو پھر چا تھی- والد صاحب دبئی میں تھے اور ان کو کہہ کر چا منگوانی شروع کر دی لیکن جو مزہ بھیا کے چوبارے یعنی یورپ میں تھا کہ ذائقوں سے بھری ہوئی الماریاں اور آپ پریشان کہ پہلے کون سے پی جائے وہ بلخ و بخارے نہ تھا یعنی یہاں پر بس جو آگیا دبئی سے صبر شکر کر کے پی لیا- مظہر الاسلام یاد آئے اور اس ہیرو سے ہمدردی محسوس ہونے لگی کہ اب وہ ملے تو بندہ اس کو کہہ سکتا ہے کہ بھائی ویسے تو اب بھی یہ خود کشی ہے لیکن میں آپ کے درد کو بخوبی سمجھ سکتا ہوں- 

پاکستان رہ کر یہ ضرور ہوا کہ کہیں دودھ والی دیسی چائے پوچھی جائے تو انکار نہیں کرتا البتہ چینی اس میں تین چمچ ڈالتا ہوں کہ بیماری کو خوشنما تو ہونا چاہیے وگرنہ چائے/ کافی ہم اب بھی کالی پیتے ہیں اب جنس مخالف اس بارے کیا اثر پڑتا ہے اس پر پر روشنی ڈالنے سے بندہ قاصر ہے – کوئی ان میں سے بتائے تو بتائے البتہ مقبولیت بارے ہم کہہ سکتے ہیں آج بھی انہیں دو چار لوگوں میں مقبول ہیں جن میں پہلے مقبول تھے باقی رہے نام اللہ کا-
talab e cha