main ros (russia) , lenin prize aur blog award
جب ہم نے ہوش سنبھالا تو آج کاروس تب یو ایس ایس آرUSSR کے طورپوری آب و تاب سے آدھی دنیا کا حکمران تھا۔تب تک بڈھ بیر والے یوٹوU2 والا واقعہ روسیوں اور ہمارے ذہنوں سے محو ہو چکا تھاروس کی افغانستان میں مفت میں مداخلت، گرم پانیوں تک رسائی والے سچ جھوٹ، امریکی فنڈڈ جہاد افغانستان اور روس کی اسکی عرب ممالک کے ساتھ یاری عین موقع پر نہ نبھانےکےباوجود بھی امریکہ کو تڑی شڑی لگانے کے باعث ہماری دلی ہمدردیاں ہمیشہ روس کے ساتھ ہی رہی ہیں۔
فیض صاحب کو لینن پرائز دے کر تو روس نے ہمارا دل جیت لیاتھا۔چونکہ ہم بھی باقی پاکستانیوں کی ترقی پسند واقع ہوئے ہیں کہ کبھی بھی کسی بھی قیمت پر ترقی کرنے کو تیار رہتے ہیں اس لیے پہلے اپنے افسانوں پر اور اب اپنے بلاگ پر ہمیں امید رہتی ہے کہ شاید لینن نہ سہی گوربا چوف ایوارڈ ہی مل جائے کہ ایک تو روس کے بارے ہم اپنی ہمدردیاں پہلے پیراگراف میں تحریر کر چکے ہیں اور دوسرا اپنے ملک والوں نے تو اپنی قدر کرنی نہیں ہے۔
ہو سکتا ہے کہ آپکو یہاں یہ شک پڑے شاید ہم اپنے آپ کو بلاگروں کا فیض صاحب سمجھتے ہیں تو بھائی ایسا ہرگز نہیں ۔ایک تو یہ تصیح کر لیں کے ہم ایک معمولی سے بلاگر ہیں جو اپنی فراغت کا بدلہ انٹرنیٹ سے اتارتے ہیں اور فیض صاحب اردو شاعری کا ایک ستون ہیں –اور دوسرا یہ کہ اب اردو ادب کا زمانہ تو گزر چکا ہے ہر طرف بے ادبی کا یعنی بلاگروں کا دور دورہ ہے تو اب ایوارڈ بھی بلاگز پر چل رہے ہیں۔
ہمیں روس ایوارڈ کیوں دے تو ایک توہماری خود پسندی اور شیخ چلی سی طبعیت ہونے کے باعث ایسا سوچتے ہیں کہ ہم سے بڑھ کر کون ایوارڈ کے قابل ہو گادوسرا روس کے ٹوٹنے کے بعد امبریکہ کے دنیا میں کردار اور اردو کی عدم سرپرستی اور امبریکہ جانےپر بے ہودہ قسم کی تلاشی کے سبب ہماری روس سے محبت اور توقعات میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ ہم ایوارڈ کے طلبگار روس پسندی اور ترقی پسندانہ طبعیت کے باعث ہیں حالانکہ اس میں بھی ہمارا نمبر خاصا نچلا ہے کیونکہ یار لوگ تو ضرورت کے وقت گدھے کو باپ بنانے سے بھی ایک قدم آگے جاکر روس کو مادر رشیا بنا چکے ہیں لیکن مشرقی یورپ میں ہم اردو لکھنے والوں میں اہم مقام ضرور رکھتے ہیں۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہماری نظر سے اب تک اپنے علاوہ کوئی اور بندہ نہیں گزرا جو مشرقی یورپ سے اردو بلاگنگ کر کے اردو کی ترویج میں دن رات ایک کر رہا ہو۔پہلے ہم نے پولینڈ میں واحد اردو بلاگر کی حیثیت سنبھالی رکھی اور اب تو ایسٹونیا میں واحداردو لکھنےکے ساتھ ساتھ واحد اردو پڑھنے والے بھی بنتے نظر آتے ہیں کیونکہ الحمد للہ یہاں پاکستانیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
اور ویسے بھی فیض صاحب کو جب ایوارڈ ملا تھا توتب مشرقی یورپ روس ہی تھا اور ہم تو باقی ماندہ روس سے کوئی چھوٹا موٹا تمغہ چاہتے ہیں ۔لینن کے ساتھ اپنا رشتہ تھوڑا ناں تھا کسی صدر کے نام کا دے دیں کسی وزیر اعظم کے نام کا دے دیں ہماری انا کے دم ہلاتے سور کو مطمعن کرنے کو کافی ہوگا۔ اور ہمیں ایورڈ دیکر روس نہ صرف اردو کے رشتے کے باعث پاکستانیوں میں نیک نام ٹھہرے گا(پاکستانی بلاگرز کے علاوہ ،کیونکہ ہمیں ایوارڈ ملنے پر اکثر نے واویلا ہی مچانا کہ یار۔۔علی حسان؟؟؟)دوسرا مشرقی یورپ میں بھی اس کی نیک نامی ہو گی جو کہ سابقہ روسی حرکات کی وجہ سے روس پر مفت کی تپ کھائے بیٹھے ہیں اور روس ہے کہ انکے ساتھ کامن ویلتھ بنانے کے چکر میں ہے۔
جس طرح ہمارے پہلے دورہ ماسکو کے موقع پر ہوائی اڈے پر ٹرانزٹ ڈیسک Transit Desk والی خواتین نے ہمارے ساتھ سلوک کیا ہے اس سے ہمیں اپنے ایوارڈ لینے کا قوی یقین ہو چلا ہے کہ خاتون خود اٹھ کر امیگریشن کا مرحلہ پار کروا آئی جبکہ قطار میں لگے یورپی اور چینی ہمکوحسرت سے دیکھتے ہی رہے حالانکہ قطار کا یہ عالم تھا کہ امیگریشن والی بی بی روسی میں کچھ کہتی تھی اور سامنے والا گل محمد بنا رہتا تو وہ اشارے سے کہتی دفعہ ہو جائو اور وہ بیچارہ بے وقوف بنا قطار میں دوبارہ سب سے پیچھے جا کر لگ جاتا۔۔ویسے سمجھ تو مجھے بھی نہیں کہ اس کو میرے کھسکنے کا ڈر تھایا کچھ اور پر ہم خوش بہت ہوئے ہیں اور اسی خوشی میں ہم نے روس کے تفصیلی دورے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
اس بلاگ میں اس کا اعلان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر روس دلچسپی رکھتا ہو تو ہم ایوارڈ کی تقریب کے لیے بھی وقت شقت رکھ لیں گے ورنہ واپسی پر ایسا سفر نامہ تو لکھا ہی سمجھیں کہ جس سے روس ہمیں یہاں گھر آ کر انعام دے جائے گا۔اور ویسے بھی امبریکہ بہادر پر طنز تو ہم گاہے بگاہے کرتے ہی رہتے ہیں۔
ہم اس موقع پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہ مضمون کسی بھی پاکستانی ایوارڈ بانٹنے والی کمپنی کے نظر التفات نہ کرنے کے باعث دل برداشتہ ہو کر لکھا گیا ہے۔اگر کوئی کمپنی ایوارڈ دینے میں دلچسپی رکھتی ہو تو اطلاعاً عرض ہے کہ خاکسار ظاہر کرے یا نا کرے اس میں لبرل ازمLiberalism اور نیشنل ازم Nationalismبھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہےاور ترقی پسندی کو ایسی پارٹی ثانوی شے سمجھے۔ البتہ امریکہ اگر ایوارڈ دینا چاہے تو معذرت کے ساتھ کہ امبریکہ نہیں آ سکتا سنا ہے آپ وزیروں کےکپڑے اتار لیتے ہیں لہذا کوئی ایمبیسی میں ہی چھوٹی موٹی تقریب سے کام چلا لیں گے۔
اور ہم آخر میں یہ واضح کر دیں کہ اگر روس کو بھی انکار ہے اور اس نے بھی نخرے دکھائے تو اپنے راجہ صیب تو ہیں ہی ہیں جنکے ساتھ ہم آل یورپ اردو بلاگر ایوارڈ کا پروگرام بنا چکے ہیں ۔نہ دو روسیو ہم اٹلی جا کر مجبوری کے عالم میں "پاکستانی زندہ باد "کا نعرہ لگا کرہی ایوارڈ لے لیں گے (حالانکہ ہمارا ایمان ہے کہ پاکستان کی ترقی میں کوئی شے رکاوٹ ہے تو وہ ہے پاکستانی قوم) ۔کہ ایوارڈ تو ہم لیکر رہیں گے چاہے بازار سے 20 یورو خرچ کر کے لے آنا پڑے۔