September 21, 2012

راوی چین لکھتاہے


Ravi Cheen (China) likhta hai
(سفرنامہ چین-safarnama Cheen)

 ٭ باوجود اس کے کہ مجھے چینی لڑکیاں اچھی لگتی ہیں بالکل گڑیوں سی پیاری ہوتی ہیں مجھے کبھی چین جانے کا شوق نہیں رہاکہ ضروری تو نہیں اگر کنول کا پھول اچھا لگتا ہے تو لازمی گندے پانی کے جوہڑ میں چھلانگ لگانی ہے۔دور سے بھی وہ اتنا ہی خوبصورت ہے جتنا پاس جا کر۔اب پاس جاکر اس میں سونے جواہرات تو نظر آنے سے رہے؟ لیکن کچھ نا گزیر وجوہات کی بنا پر ہمکو چین جانے کا موقع ملا تو ہم نے سوچا چلو کوئی نہیں ایک سفر نامہ ہی لکھ لیں گے اور چینی حسیناؤں سے ملاقات تو ہے ہی ہے پھر۔

 غلطی سے پڑھی گئی معاشیات کے باعث ہم سرمایہ دارانہ نظام Capitalism کے مخالف ہیں اور آج کل دنیا میں ایک چینی نظام ہی اس کےمتضاد کسی حد تک چل رہا ہے تو ہم بھی چین اور چین کے اقتصادی ماڈل کی طرف جھکاؤرکھتے ہیں۔



اور اوپر سے ہم ایسی سوچ کے حامل ہیں کہ اگر پاکستان کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت جائے تو ہمیں کم خوشی ہو گی
 اگر امریکی ٹیم نکارا گوا سے بیس بال میچ ہار جائے تو ہمیں زیادہ خوشی ہو گی خواہ ہم بیس بال کی الف بے سے آگے کچھ نہ جانتے ہوں اور چاہے دو دن لگا کر بھی ہم نقشے پر نکارا گوا تلاش نہ کرسکیں۔اور چین اس لحاظ سے بھی واحد ملک ہے جو امریکہ کو اکثر خاطر میں نہیں لاتا لہذا ہم پاک چین دوستی کے بھی شدید داعی ہیں۔

 لیکن ہمارے ارمانوں پر اوس تب پڑی جب ہم کراچی سے ایر چائناAir China میں بیجنگ جانےکے لیے سوار ہوئےاور ہمیں بہاولپور سے احمد پور شرقیہ جانے والی ویگن یاد آگئی جس میں ڈرائیور حضرات تین کی بجائے چار چار سواریاں بٹھاتے تھے اور ڈرائیور کی سیٹ کے پیچھے بھی ایک پھٹہ لگا کر تین چار مسافر وہاں بھی گھسا دیے جاتے تھےاور کسی کی ٹانگ کسی اور کے گھٹنے سے برآمد ہوتی تھی جسکے نتیجے میں اکثر جھٹکوں پر سیٹ تین، چار، پانچ ،پانچ اے اور پھٹہ تین، چار، پانچ، پانچ اے پر پہلی بار سفر کرنے والے مسافران ایسے پیٹ تھام لیتے تھے جیسے کبھی کبھار بلے باز پیٹ کے نچلے حصے پر بال لگنے کے باعث تڑپ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن چین ایر چین کی نشستوں کے برعکس بڑا کھلا نکلا۔دل سے بھی اور رقبے سے بھی۔

چین جانے سے پہلے چینی ضرور سیکھ لیں ورنہ آپ نے خوار ہونا ہے دو لفظ ہم آپکو سکھائے دیتے ہیں جو آپکے بھی ایسے ہی کام آئیں گے جیسے ہمارے آئے۔
نی ہاؤ (ہیلو)!
انگلش؟؟ 
اگر ہاں بولے اگلا تو مزے ورنہ اس وظیفے کی گردان جاری رکھیے کوئی تو بولنے والا ملنے گا آخر۔

٭پہلی نظر میں چین سے محبت
 Pehli Nazar main Cheen se Muhabbat

ہمارا پہلا پڑاؤ تیان جن تھا۔یوں تو چین کی پہلی زیارت چندو یا چنگدوchengdu میں ہوئی تھی(خدا جانے اس کا صیح تلفظ کیا ہے کوئی بھائی بتا دیں تو مہربانی ہو گی)جہاں کسٹم والے حضرات نے ہم سے کوئی سوال پوچھے بغیر ہی ملک میں آمد کی مہر ہمارے پاسپورٹ پر ثبت کر دی۔چاہے انہیں انگلش نہ آتی ہو پھر بھی ہمارے لیے تو یہ اعزاز ہی تھا کہ سبز قدم اور سبز پاسپورٹ اور پھر بھی کوئی اعتراض نہیں۔

 تیان جن Tianjin کو چینی تیین جن کہتے ہیں یعنی تی یین جن۔ ویسے مجھے تو تیان جن ایک بڑا دبئی لگا۔وہی ناک نقشہ ،بہت بڑا دبئی کہ یہاں کی ہر روڈ شیخ زید روڈ سے چار پانچ قدم آگے ہی ہے۔ تیان جن چین کے بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے تبھی تو چین کے نقشے پر بیجنگ سے ذرا نیچے اسکا نام تلاش کیا جاسکتا ہے۔اس شہر کی آبادی بھی اچھی خاصی ہے۔ویسے تو یہ بلاگ ہے کوئی انسائیکلو پیڈیا encyclopedia نہیں کہ میں رقبہ اور آبادی بتاتا پھروں اور پھر رقبہ تو چلو اپنی جگہ قائم ہے آبادی کا کیا ہے کوئی آیا کوئی گیا کوئی پیدا ہوا کوئی فوت ہوابہرحال پھر بھی آپ کے دل کی تسلی کے بتاتا چلوں کہ اسکی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے۔ہم سے پوچھیں تو شہر میں دیکھنے کے قابل چینی حسینائوں اور چینیوں کے کھلے دل کے سوا کچھ نہیں۔

حلال کھانا کوئی مسئلہ نہیں ، بکثرت حلال ہوٹل ملتے ہیں،مارکیٹ میں حلال اشیا دستیاب ہیں اور اگر بالفرض محال نہ بھی ملیں حلال تو آپ جانتے ہیں کہ بھول چوک لین دین۔ تیان جن میں اگر آپکو چینی نہیں آتی تو عربی ضرور آنی چاہیےکیونکہ اگر عربی کوئی بول نہیں سکتا تو کم از کم اس نے عربی میں مینیو اور دکان پر موجود اشیا کی فہرست ضرور چھپوا رکھی ہیں۔

تیان جن چڑیا گھر میں گئے تو وہاں ہمارے ساتھ تصویر کھینچوانے والوں کی لائن لگ گئی۔اتنے خوش فہم ہم نہیں کہ سمجھیں کہ وہ ہماری شخصیت یا مردانہ وجاہت سے متاثر ہو کر فوٹو کھینچوا رہے تھے بلکہ اصل بات یہ تھی کہ ہم نے تو پانڈا ٹکٹ بھر کر بھی شیشے کی اوٹ میں دیکھاجبکہ انہوں نے ہمارے جیسے نادرالوجود جانور کا نہ صرف دیدار کر لیا بلکہ مفت میں ساتھ تصویریں بھی اتروا لیں۔

 ٭ تنگ آمد بیجنگ آمد
 Tang aamad Beijing aamad ٭

جس طرح ہم تین گھنٹے کا فاصلہ گولی والی ٹرین(بلٹ ٹرین) Bullet train سے 30 منٹ میں طے کر کے بیجنگ پہنچے اس سے ہمیں پتہ چل گیا کہ مشکلات کتنی آسانی سے آ جاتی ہیں۔

 اگر آپ کو کسی نواب سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا تو بیجنگ آ کر یہاں کےٹیکسی ڈرائیوروں سے مل لیں آپکی یہ حسرت بھی پوری ہو جائے گی۔خالی ٹیکسی لیے جارہے ہیں آپ لاکھ اشارہ کریں نہیں رکیں گے۔ان کو آپ دو بار میں نہیں سمجھا سکے کہ کہاں جانا ہے جو کہ انکے تلفظ اور ہمارے انگریزی کے مارے تلفظ کو دیکھتے ہو ئے نا ممکن ہے تو غصے سے بڑ بڑاتے آگے چل پڑیں گے۔جہاں دل کرے گا ٹیکسی روک کر سیگرٹ پینا شروع کر دیں گے یا سیٹ لمبی کر کے لیٹ جائیں گےاور ایک سواری کو نہیں کہا اور دس سیکنڈ بعد ہی دوسری سواری کو لے کر سیگرٹ وہیں پھینک کر چل پڑیں گے۔

 چونکہ ہمارے خالو بھی ہمارے ہم سفر تھے لہذا انکے ساتھ بادل ناخواستہ ہمیں بھی جمعہ کی نماز ادا کرنے پاکستانی ایمبیسی جانا پڑا ورنہ ہمارا اصول رہا ہے کہ دیار غیر میں جہاں چار پانچ پاکستان اکٹھے ہوئے ہم وہاں سے کھسک لیے کجا ایک پوری پاکستانیوں سے بھری ہوئی مسجد۔بہرحال ہم اس موقع کو غنیمت جان کر وہاں اس سفارتخانے کے ملازم کو تلاش کرتے رہے جس کے بارے جیو کے پروگرام خبر ناک میں انکشاف کیا گیا تھا کہ وہ ایک ہزار یوآن کے عوض پاکستان کا ویزا لگا کر دیتا ہے اور اگر کوئی خاتون راضی ہو جائے تو بالمشافہ ملاقات پر بھی ویزا لگوایا جا سکتا ہے۔لیکن شاید کچھ روزے کی تھکاوٹ تھی اور کچھ مولوی صیب کا نماز پر اسقدر زور تھا کہ ہم کو اپنی آخرت ڈوبتی نظر آ رہی تھی اور ہم اس طرف متوجہ رہے وگرنہ ہم اتنے خوش گمان تو ہرگز نہیں کہ کسی کی شکل دیکھ کر اس کے بارے بدگمانی نہ کریں۔

 ایسے ہی ہمیں کھانا کھانے کے لیے پاکستانی ہوٹل جانا پڑا جہاں کا کھانا کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہوتا پر پاکستانیوں سے پاکستان سے باہر ملنا ہمارے لیے خوش گوار فعل ہرگز نہیں رہا۔

 روز رات کو ہمارے کمرے میں فون کر کے مساج کا پوچھنے والی بی بی کے لہجے سے ہم کیا کسی نیک فطرت انسان کو بھی بری سوچیں آنے لگ جائیں گی۔ایک تو ویسے ہی لال مسجد والے واقعے کے بعد سے چینی مساج کرانے سے ڈر لگتا ہے دوسرا جب وہ بی بی پوچھتی ہیں انکی آواز مساج کرنے والی کی بجائے ایسے بندے کی لگتی ہے جو نو آموز مالشی کے ہتھے چڑھ کر ابھی ابھی فارغ ہوا ہو، تیسرا ہمارے رشتے کے خالو کی ہمارے ساتھ موجود کے باعث ہم فون بجتے ہی کچھ سنے بغیر ہی نو کہہ کر اس بی بی کے ارمانوں اور اپنے تجسس کا گلا گھونٹ دیتے ہیں ۔لیکن وہ بی بی کوئی پٹھان چینی ہےمجال ہے جو سمجھ آجائے۔ روز رات پونے بارہ بجے فون کر کے اسی لہجے میں پوچھتی ہیں "مساج؟؟"

 ٭چین کی دیوار پر
Cheen ki dewar per

چونکہ چین جانا اور دیوار چین نہ دیکھنا ہمارے لیے انتہائی شرمناک امر تھا کہ واپس آ کر لوگوں کو کیا بتاتے کہ دیوار چین دیکھے بغیر آگئے اسی لیے جانا پڑا وگرنہ ہماری ایک زمانے میں شاعر ہونے کے باوجوددیواروں میں اور دیواروں سے باتیں کرنے میں دلچسپی کبھی نہیں رہی بلکہ ہم تو دیوار برلن کے گرنے پر خاصے مسرور ہوئے تھے کیونکہ دیوار پھلانگنے پر ہم کئی بار ٹانگ تڑواتے تڑواتے بچے ہیں۔ بہرحال دیوار چین اور عام دیوار میں یہ فرق ہے کہ ایک تو یہ گھر کی دیوار نہیں دوسرا یہ بہت لمبی ہے اتنی لمبی کہ گھنٹہ تو ہم خود اس پر چل کر آئے ہیں پر یہ شیطان کی آنت کی طرح ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ویسے آپس کی بات ہے شیطان کی آنت کس نے ماپی ہو گی جو یہ محاورا بنا ہے؟ ہمارے خیال میں بہرحال دیوار چین شیطان کی آنت سے بھی لمبی ہے۔تیسرا یہ ایک دیوار نہیں بلکہ دو دیواریں جنکے درمیان چلنے کی جگہ بھی ہے۔چلنے کی جگہ کم ہے پھاندنے کی جگہ زیادہ ہے کیونکہ ہموار نہیں بلکہ مسلسل سیڑھیاں ہیں کوئی اوپر اور کوئی نیچے۔گویا تب انسان نہیں بندر پہرہ دیا کرتے ہوں گے یہاں مجال ہے جو پانچ فٹ بھی ہموار جگہ آ جائے۔بس جیسے جیسے پہاڑ اونچا نیچا ہوتا گیا دیوار اونچی نیچی ہوتی گئی۔اب جہاں اس زمانے میں اتنی تکلیف اٹھائی اسکا فرش بھی ہموار کر دیتے کہ اب روز لاکھوں کے حساب سے آنے والے پاغل بشمول ہمارے بنچنگ جمپنگ Bunching jumping کرنے کی بجائے ذرا ٹہل ہی لیا کرتے۔ باقی کوئی اتنی اونچی نہیں کہیں دس فٹ کہیں پندرہ فٹ بس بنی پہاڑ پر ہوئی ہے۔

دیوار چین جانے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کو احساس ہوتا ہے کہ دنیا میں فقط میں ہی پاغل نہیں ، دوسرا یہ کہ وہاں ہر ملک ہر قوم ہرزبان کا پیس Piece مل جاتاہے۔گویا ایک ٹکٹ میں دو مزے۔پر وہ ایک ٹکٹ 60 یوآن کی ہے یعنی 900 پاکستانی کی۔اور وہ 100 یوآن علیحدہ جو ہم نے ٹور Tour والوں کو فی بندہ کےحساب سےدیے تھے۔خود ہی بتایے ہے کوئی پاگل پن کی حد۔

 دیوار چین پر ٹور کے ہمراہ جاتے ہوئے تین ایرانیوں نے بیچاری ٹور گائیڈ کے ساتھ جو سلوک کیا اس سے ہمیں یک گونہ خوشی ہوئی کہ لڑکی کو دیکھ کر پھسل پھسل جانا اور ہوش و حواس گنوا بیٹھنا فقط پاکستانیوں کا مسئلہ نہیں بلکہ تمام عالم اسلامی میں یہ بیماری پائی جاتی ہے۔

 دیوارچین سے واپسی پر ہمیں مفت مساج سینٹر لے جایا گیا جہاں پر ہمارے پیروں کا مساج کیا گیا۔ایک روزہ دوسرا دیوارچین پر سیڑھیاں اتر چڑھ کر ہماری طبعیت خوب ٹھکانے لگی ہوئی تھی۔ پہلے تو ہم دعاکرتے اللہ کرے کرنے والے لڑکے ہو کہ کہیں ہمارا روزہ کھنڈت نہ ہوجائے۔لیکن جب لڑکا آیا تو ہمیں اس بات کا دھڑکا لگا رہا کہ کہیں یہ ہم جنس پرست نہ ہو بس اسی پریشانی میں ہم آنکھیں موند کر سکون سے مساج بھی نہ کرا سکے۔

٭ چین میں اور چین (سکون)میں
 cheen main or chain (skaoon) main

بھائیو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جتنے دن ہم چین میں رہے بڑے سکون میں رہے۔ جیسا کہ ہم بارہا بتا چکے ہیں ہمیں شکل وصورت ،رنگ و قومیت سے بالاتر وہ افراد ہی اچھے لگتے ہیں جو ہم سے ہنس کر مسکرا کر پیار سے بات کرے تو چینی ہمیں اب تک ملے گئے افراد میں سب سے اچھے لگے ہیں کیونکہ یہاں یورپ اور ہمارے اپنے ملک میں تو ہمیں کسی نے گھاس نہیں ڈالی البتہ چین میں نہ صرف لوگوں نے مسکرا مسکرا کر بات کی بلکہ چند ایک نے دبے سینے ٹھنڈی آہ بھی بھری کہ ایڈا سوہناجوان۔تین چار سیلز گرلز sales girlsنے تو خود آکر کہاyou are handsome (ہائے کتنے خوبصورت ہو)اب ہوسکتا ہے کہ آپ کہیں انکا مطمع نظر اشیا کی فروختگی تھا لیکن بھائی ہمیں تو کبھی ہماری والدہ صاحبہ نے نہیں کہا میرا بیٹا کتنا خوبصورت ہے۔

 المختصر اور الجامع یہ کہ چین ہمیں اب تک واحد ملک لگا ہے جہاں کے لوگ پاکستانیوں کو دھتکارتے نہیں بلکہ چھوٹے (بیجنگ کےمقابلے چھوٹے )شہروں والے تو بڑی محبت سے ملتے ہیں اور اس محبت کو برقرار رکھنے کے لیے ہماری دلی دعا ہے کہ اللہ میاں چین پاکستانیوں کا ویزا اس سے بھی زیادہ مشکل کر دے جتنا اب ہے تاکہ پاک چین دوستی زندہ باد رہ سکے۔چینی خواتین بڑی تگڑی ہوتی ہیں اور اکثر فیملی کی سربراہ بھی ہوتی ہیں اور جب پاکستانیوں نے یہاں آکر اپنے جوہر آباد دکھائے تو انہوں طبعیت سیٹ کر دینی ہے پہلے بتائے دیتے ہیں۔

 باقی چینی لڑکیوں کا اگر پوچھیں جو ہمیں ہمیشہ سے اچھی لگتی ہیں تو بھائی چین جا کر اب ہمارا جواب چینی لڑکیوں بارے یہ ہے کہ" سیدھی سی بات ہے چینی ہےتو میٹھی تو آپے ہوگی"۔