February 19, 2013

نئے لوگوں کو ووٹ کیوں نہ دیں-حصہ اول

Nae logo ko vote kiyon na dain-hissa awal

 الیکشن کی آمد آمد ہے اور ایک بار پھر عام عوام کے مزے کے دن آنے والے ہیں۔کوئی تبدیلی کےنعرے پر ووٹ مانگ رہا ہے کوئی سابقہ کارنامے جو صرف انکی نظر میں ہیں کی بنیاد پر ووٹ مانگ رہا ہے۔کچھ خون شہیداں سے آس لگائی بیٹھے ہیں کچھ زور بازو سے ووٹ حاصل کریں گے۔کچھ ٹڈی دل کے لشکر کی طرح نمودار ہو رہے ہیں کچھ تیسری قوت سے تکیہ لگائے بیٹھے ہیں کچھ کو امریکہ سے امید ہے کچھ کو موجودہ لوگوں کی خامیوں سے امید ہے۔لیکن ہماراآج کابلاگ ہمیشہ کی طرح سراسر غیر سیاسی ہے۔ہماری طرف سے آپ چاہے ہمیشہ کی طرح کالے چور کو ووٹ ڈالیں یا دم ہلاتے کھمبوں کو ہمیں کیا۔تاہم ہم آج کے بلاگ میں آپ کی سوچ کو تقویت دینےکی کوشش کریں گےکہ نئے لوگوں کی سیاست میں حوصلہ افزائی کیوں نہ کی جائے۔کیوں ایک بار پھر انہی لوگوں کو ووٹ دیے جائیں۔اب آپ بار بار انہی کو چنتے ہیں کوئی تو وجہ بھی ہو آپکے پاس آخر اور پھرہمارا انکا اتنا پرانا تعلق ہے کچھ تو حق بھی بنتا ہے انکا کہ نہیں۔


 اگلے پانچ سال گالیاں کس کو دیں گے؟
یہ پہلے سے منتخب لوگوں کو دوبارہ منتخب کرنے میں سب اہم وجہ ہے۔ہماری ساری قوم ہر وقت فرسٹریشن کی شکار رہتی ہے۔اب اگر کوئی ایسے حکمران آگئے جنہوں نے اچھے کام شروع کر دیے تو ہمارا غصہ کہاں نکلے گا۔سارے دن کی جھڑکیاں کون سہے گا۔اگر سیاستدانوں کو گالیاں نہ نکالیں تو ہمارے نوکروں، ہمارے ہمسائیوں، کمزور شوہروں اور بیویوں ، بچوں ،ریڑھی والوں ، دکانداروں کی الغرض جس پر جس کا زور چلے گا اس کی شامت آ جائے گی۔ لہذا امن و عامہ کی صورتحال برقرار رکھنے کو انتہائی ضروری ہے موجودہ لوگوں کو ہی دوبارہ چنا جائے ۔کسی خوش اسلوبی سے تمام پاکستان کو بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں کبھی شکوہ نہیں کیا، کبھی زبان پر کوئی لفظ نہیں لائے، کبھی کسی ایس ایم ایس پر اف تک نہیں کیا۔ اب بھلا یہ مناسب ہو گا کہ ہم نئے لوگوں کو سامنے لائیں جو یا تو اچھے کام کرنے لگ جائیں اور اچھے کام نہ بھی کریں تو گالیاں سننے پر پابندی عائد کردیں۔پہلے ہی ملکی حالات نازک ہیں اوپر سے کچھ ایسا قدم انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

 نا اہل لوگ نہیں آئیں گے تو ہم تماش بینی کیسے کریں گے؟
ہماری قوم کا قومی کھیل تماش بینی ہے۔ہم خود دس ہزار کا نقصان کر آئے ہوں ہمسائے کے دس روپے کے نقصان پر ہماری خوشی اور ہمارا جوش دیدنی ہوتا ہے۔ کہیں ایکسیڈنٹ ہوا نہیں اور تماشہ لگانہیں۔دو لوگ اونچی آواز میں بات بھی کر رہے ہوں گے تو لوگ اکٹھے ہو کر لڑنے پر اکسانے لگیں گے۔ایسی قوم کے لیے موجودہ اسمبلی اور سابقہ اسمبلیوں نے بے شمار تماشوں کا کامیاب انعقاد کیا ہے ۔اب اگر کوئی سنجیدہ لوگ آگئے تو ہماری تماش بینی تو گئی ناں تیل لینے۔ایک نظر موجودہ لوگوں پر ڈالیں اور دل پر ہاتھ رکھ کر بولیں اس سے بہتر کوئی ڈرامہ، کوئی فلم ہو تو بتائیں۔

مفت کے چوہدری کہاں جائیں گے؟
 اچھے لوگ آ گئے اور اچھا نظام آگیا تو سب برابر ہوں گے ایسی صورت میں آپ مفت کے چوہدری کیسے بنیں گے؟ جب لوگ حکمرانوں کو برا بھلا کہتے ہیں تو میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ بھائی ایک تو آپ نے خود ووٹ دیا ہے دوسرا آپکو کرسی مل گئی تو آپ نےبالکل وہی کرنا ہے جو وہ کرتے آئے ہیں۔ہماری طرف الیکشن لڑنا بڑا آسان ہے۔ہر علاقے میں تین چار مفت کے چوہدری ہیں جنکو آپ پکڑیں ان سے لائن سیٹ کریں وہ آپ کو اپنے پچاس سو ووٹ ڈلوا دیں گے۔اب اگر ایسا بندہ آ گیا جو ہر بندے کا کام کرنے لگ گیا تو مفت کے چوہدری تو رُل گئے۔یہ نہ سمجھٰیں کہ تین چار لوگوں نے سب علاقہ ہائی جیک کیا ہوتا ہے بس ہوتا یوں ہے کہ ان کے ہاتھ کوئی بندہ ہوتا ہے جو تھانہ کچہری کا کام کروا دیتا ہے۔ اگر آپکا کوئی جاننے والا ایسا ہو جائے جو جائز نا جائز کام کرا سکے تو چوہدری آپ ہیں میرے ہاتھ لگ جائے تو چوہدری میں ہوں۔ یعنی خواہش سب میں ہے اور نئے کسی ایسے بندے کو منتخب کر کے ہم اپنے پاؤن پر کلہاڑی کیوں ماریں جو کہے کہ بھائی تھانہ کچہری پٹواری نوکری کی سیاست بند کرو۔

 ہمارے سب کے پسندیدہ ٹاک شوز میں دیکھنے قابل باقی کیا رہ جائے گا؟
بڑے سے بڑا ڈرامہ سیاسی ٹاک شوز کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔اینکرز کی تنخواہ خوبرو ہیروئینوں سے بڑھ کر ہے۔ماہرہ خان ، نادیہ خآن، مایا خان سے کامران خان زیادہ مشہور ہیں۔پرائم ٹائم ڈراموں کی بجائے سیاسی شوز زیادہ چلتے ہیں۔زبانی نوک جھوک اسٹیج جگتوں سے زیادہ دوہرائے جاتے ہیں۔اب اگر کچھ الٹے مزاج کے لوگ اسمبلیوں میں آگئے تو دیکھنے کو تو کچھ نہیں بچے گا۔سیاسی ٹاک شو مذہبی وعظ کے پروگرام میں بدل جائے گا۔ اس سے معاشرے پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے کیونکہ پھر لوگ بور ہو کر عشق ممنوع نابالغان اور ساس ساس کی کہانی جیسے ڈراموں کی طرف لوٹ جائیں گے جس سے معاشرے میں بے حیائی پھیلنے کا خطرہ ہے۔لہذا یہ ہمارا ملی فریضہ بھی بنتا ہے کہ دوبارہ انہی لوگوں کو ووٹ دیا جائے یا کم از کم کسی ایسے امیدوار کو ووٹ نہ دیں جس کو ہم نے آزمایا نہ ہو۔

نظام ٹھیک ہوبھی گیا تو ہم اپنی نا اہلی کس کے کھاتے ڈالیں گے؟
نوکری نہیں ملی نظام کی خرابی ہے، گیس نہیں ملی نظام کی خرابی ہے، ٹریفک بلاک ہے نظام کی خرابی، فیل ہو گئے نظام کی خرابی، آپکے کتے کا پیٹ خراب نظام خراب،صبح جلدی آنکھ نہیں کھلی نظام کی خرابی،الغرض تمام بیماریوں کی ایک جڑ کے مصداق نظام کی خرابی نامی بلا اگر نئے لوگوں کے آنے سے ٹھیک ہوگئی تو ہم کسی کو منہ دکھانے قابل نہ رہیں گے۔ ہوسکتا ہے نئے لوگ ڈنڈا استعمال کریں جو کہ ہماری بڑی کمزوری ہے جس سے ہم سیدھے ہوجاتے ہیں اور جس سے نظام بھی سیدھا کیا جاسکتا ہے تو پھر کوئی میرا بلاگ نہیں پڑھے گا تو میں کس کو الزام دوں گا۔لہذا میری پرزور اپیل ہے کہ بھائیو ایک بار پھر،،،،،

کراچی کے شہریوں کی کھالیں کون اتارے گا؟
آپ غلط سمجھے شہریوں کی کھالیں نہیں شہریوں کے جانوروں کی کھالیں۔ نئے بندوں نے کراچی کا نظام ٹھیک کردیا تو کراچی کے شہری کھالوں اور فطرانہ کس کو دیں گے؟ لیں جی کراچی والوں کے لیے تو دوہرا عذاب ہے۔نئے لوگ آبھی گئے جو کہ ویسے تو ناممکن بات ہے "لیکن اگر آپ کراچی میں نہ رہتے ہوں تو مثال دینا تو مفت ہے "تو اگر مثال کے طور پر نئے لوگ آگئے تو سوچیں بیچارے کراچی والے عیدین کو مارے مارے پھر رہے ہوں گے۔انکی عید آگ ہو جائے گی کہ کوئی اللہ کا بندہ ملے جس کو فطرانہ دیں تو عید اور روزے قبولیت کا درجہ پائیں۔اب بڑی عید پر کھالیں کہاں کی جائیں کہ گوشت تو ہمیشہ کی طرح فریزر بھر کر رکھا جاسکتا ہے کھال تو محفوظ نہیں کی جاسکتی اور محفوظ کر بھی لی جائے تو ڈرائینگ روم میں شیر کی جگہ بکری منہ کھول کر چڑاتی اچھی لگے گی؟ادھر کھال کی صفائی کو بھی ہاتھ کی صفائی چاہیے جو محض نام کے اور کام کے قصائیوں میں ہوتی ہے لہذا کراچی والوں کے لیے تو اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ چپ کر کے گھر بیٹھے رہیں اور باقی کام امیدوار خود کرلیں گے۔اگر نہیں ماننی ہماری بات تو جاؤ ڈالو ووٹ کرو خراب اپنی عیدیں ہمارا کیا جاتا ہے۔ہم تو محض مشورہ دے سکتے ہیں۔۔۔۔
(جاری ہے)