(Mehnat (afsana/kahani
محنت ، توجہ اور لگن ہی واحد شے ہے جوآپ کو آگے بڑھنے میں مدد دے سکتی ہے۔پروفیسر شاہ کے یہ الفاط میری یاداشت سے کبھی محو نہیں ہوئے۔یونیورسٹی میں پہلے لیکچر کے دوران کہے گئے الفاظ مجھے ایسے یاد ہیں جیسے کل کی بات رہی ہو۔محنت ،توجہ اور لگن اور ان سے بہتر ہیں انتھک محنت ،انتھک توجہ اور انتھک لگن۔پروفیسر شاہ ہمارے چئیرمین بھی تھے اور بہت سے لوگوں کے آئیڈیل بھی۔ایک تو وہ عمر ہی ویسی ہوتی ہے جس میں آئیڈیل جیسی فضولیات خود سے پھوٹ پڑتی ہیں اور دوسرا گفتگو اور انداز۔وہ بلا شبہ کسی بھی شخص کو متاثر کر سکتے تھے۔
ہمارا نظامِ تعلیم بذاتِ خود ایک تماشہ ہے۔چودہ سال شجرِ ممنوعہ سے دوری کے بعد اب لڑکے،لڑکیاں اکٹھے تھے اور یونیورسٹی حال ہی میں ایک بار پھر سالانہ امتحان کی بجائے سمسٹر سسٹم رائج کر چکی تھی اور وہ بھی ہمارے لیے ایک نیا تجربہ تھا کیونکہ اب تک ہم سالانہ بلکہ چند مرتبہ تو دو سالہ امتحانات سے پاس ہوتے آئے تھے اور ایسے ہی سسٹم کا فائدہ اٹھا کر میں ٹیوشنوں ،سفارشوں اور رٹے کی مدد سے گرایجوایشن میں یونیورسٹی میں فرسٹ آچکی تھی جسکی وجہ سے یونیورسٹی میں داخلے سے پہلے ہی میرے کندھوں پر گولڈمیڈل کا بوجھ منتقل ہو چکا تھا۔
ہمارے ہاں کوئی بھی معاشرتی طبقہ ہو وہ دوسروں کی نقل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور اس کوشش میں رہتا ہے کہ اپنے طبقے سے بڑھ کر ہی کچھ دِکھے یعنی تمام کوے راج ہنس دکھنا چاہتے ہیں،تمام راج ہنس عقاب بننے کے چکر میں ہیں اور تمام عقاب ہما کہلانا چاہتے ہیں۔کوئی بھی اپنی موجودہ حیثیت سے خوش نہیں ۔غریب متوسط طبقہ کا فرد نظر آنا چاہتا ہے،متوسط خود کو امیر ظاہر کرنے کے چکر میں پاگل ہوا جارہا ہے اور امیر وہ تو اپنے آپ کو انسانوں سے بالاتر دکھانا چاہتے ہیں۔پچھلی نسل کی چھلانگ ہمیں ورثے میں ملی ہے اور اس چھلانگ نے بہت سے معاشرتی برائیوں کو جنم دیا ہے اور ترقی کے اس چکر میں لوگوں نے نیکی بدی کے فلسفے سے آنکھیں موند رکھیں ہیں۔میرے والدین جنہوں نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر ہمیں دینے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی حیثیت کے مطابق بھی ہم بچوں پر نظر نہ رکھ سکے تھے جس کی وجہ سے ہم سب خود مختار سے رہے ہیں اور کسی کو جوابدہ نہیں رہے۔
جب میں نے شادی سے انکار کر دیا اور بی ۔اے میں پہلی پوزیشن لی تو میں یونیورسٹی ہاسٹل میں آگئی تاکہ فی الحال اس شادی کے چکر سے نجات ملے۔
ہماری طرف ایک اور بھی بڑی مصیبت ہے کہ کسی بھی سسٹم کے اچھے سے زیادہ برے اثرات نمایاں ہو جاتے ہیں شاید نیتوں کے کھوٹ اجاگر ہو کر ہمارے سامنے آتے ہیں ۔ایسے ہی جہاں تمام دنیا میں سمسٹر سسٹم بڑی کامیابی سے چل رہا ہے یہاں پاکستان میں اس کا بھی کباڑہ ہو کر رہ گیا ہے۔ایک تو وہی رٹہ سسٹم اوپر سے اساتذہ مختارِ کل۔جہاں ایک آدمی کلرک کی کرسی پر بیٹھ کر خود کو دوسروں سے برتر سمجھنے لگے وہاں جن کے ہاتھ لوگوں کے مستقبل بنانے بگاڑنے کا اختیار آجائے تو وہ خو د کو خدا نہ سمجھیں تو عجیب سی بات ہو گی۔
ہم لوگ جو پہلے سال بعد امتحان دیا کرتے تھے اور پھر دو سال بعد ان کو تھوڑی محنت کرنی پڑی اب رٹہ کا دورانیہ چار ماہ ہوگیا اور وہ بھی دو بار۔اور اس سے بڑھ استاد کی خوشنودی ،کسی بھی طرح۔آپ کو جتنے نمبر مل جائیں بس وہی آخری ہیں جب تک کہ وہ استاد صاحب خود ہی تبدیلی پر راضی نہ ہوں۔
پہلے سمسٹر کے اختتام پر عارف کے میرے سے آٹھ نمبر زیادہ تھے۔مجھے اس بات کا دل سے اعتراف ہے کہ عارف پڑھائی کے معاملے میں مجھ سے بہتر تھا۔ نہ صرف پڑھائی بلکہ یاداشت بھی بلا کی تھی۔اکثر لوگوں کی طرح وہ کنوئیں کا مینڈک نہ تھا بلکہ اس کی معلومات نصابی کتب سے کم اور حقیقی دنیا سے زیادہ تھا،۔جب وہ اساتذہ سے بحث کرتا تو ان کو زچ کر کے رکھ دیتا ، اس کے باوجود بھی اس سے تمام اساتذہ خوش تھے۔اس کو لوگوں کو ان کے مطابق برتنے کا سلیقہ آتا تھاجبکہ میری تمام تر قابلیت نصاب کی رٹی رٹائی کتب تک محدود تھی،اور میرے سے اساتذہ کے راضی ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ میں ایک قبول صورت اور سفید رنگت کی حامل لڑکی تھی اور اساتذہ سے گپ شپ لڑانے میں کبھی نہیں ہچکچائی تھی۔
لیکن اس میں میرا کیا قصور تھا کہ اگر عارف کا تعلق ایسے پڑھے لکھے گھرانے سے تھا جہاں کتابیں پڑھنا باعثِ فخر سمجھا جاتا ہے اور اس نے بہترین انگریزی میڈیم اسکولوں میں تعلیم حاصل کی تھی جبکہ میں ایک دیہاتی پس منظر کی لوئر مڈل کلاس خاندان کی ایک فرد تھی جس نے گورنمنٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کی تھی۔
پہلے سمسٹر کے اختتام پر میں آٹھ نمبروں کا غم لیے پروفیسر شاہ سے ملی تو انہوں نے میری حوصلہ افزائی کی اور وہی جملے دوبارہ دوہرائے کہ کامیابی کے لیے محنت ،توجہ اور لگن ہی وہ شے ہے جو کام آسکتی ہے اور اس سے بہتر ہے انتھک محنت ،انتھک توجہ اور انتھک لگن اور سب سے بڑھ کرانتہائی محنت ،انتہائی توجہ اورانتہائی لگن۔
لیکن نمبروں کا فرق ہر سمسٹر کے ساتھ بڑھتا چلاگیا اور آخری امتحان سے قبل یہ سولہ تک جا پہنچا۔ میری ہر کوشش ہر محنت رائیگاں گئی اور گولڈمیڈل ناممکن نظر آنے لگا۔
جب مجھے یقین ہو گیا کہ گولڈ میڈل کی دوڑ سے میں حقیقی طور پر باہر نکل چکی ہوں تو فائنل امتحان سے قبل میں پروفیسر شاہ کے گھر چلی گئی۔پروفیسر خاصے بڑے گھر میں تنہا رہتے تھے۔سنا تھا انکے والد لوہار تھے اور انکا موجودہ مقام تمام تر انکی ذاتی کا محنت کا نتیجہ تھا۔انکی بیوی بھی پروفیسر ہی تھیں جو دوسرے شہر میں میں بچوں کے ہمراہ مقیم تھیں اور وہاں یونیورسٹی میں پڑھاتی تھیں۔
پروفیسر نے میرے آنے پر کوئی خاص حیرانی نہ ہوئی تھی کیونکہ یونیورسٹی میں یہ کوئی ایسی نئی بات نہیں تھی بہت سے طلبہ استادوں کے گھروں کے پھیرے لگاتے رہتے ہیں۔
"سر وہ۔۔۔"میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کہاں سے شروع کروں۔پروفیسر سے میری اچھی گپ شپ تھی لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیسے بات کی جائے آخر میں نے جی کڑا کر کہا"سر مجھےتیاری کے لیے سوالات بتائیں"۔
پروفیسر نے مجھے حیرت سے دیکھا، "کیا"؟ حیرت انکی آواز سےجھلک رہی تھی۔
"سر! عارف کے سولہ نمبر زیادہ ہیں اور گولڈ میڈل میں نے ہر حال میں لینا ہے"۔
پروفیسر کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ،"اگر میں تم کو سارا پرچہ بھی بتا دوں تو تمھارا کیا خیال عارف کی تیاری نہ ہو سکے گی"؟
میں سوچ میں پڑ گئی اور اور کچھ سمجھ نہ آنے پر رونے لگی ۔
"کامیابی کی تڑپ اکثر میں ہو تی ہے لیکن کامیاب وہ ہوتے ہیں جن پر یا تو قدرت مہربان ہو جائے یا وہ جو کامیابی کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں۔جو کامیابی کے لیے کسی قدم سے گریز نہیں کرتے کامیابی ان کے قدموں میں دھری رہتی ہے اور وہ اگلی سے اگلی منزل کا سفر جاری رکھتے ہیں"۔پروفیسر شاہ کی آواز گونجی۔
"آپ ہی بتائیے میں گولڈ میڈل کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہوں"،میں نے آنسو پونچھتے ہوئے پروفیسر سے پوچھا۔
"کچھ بھی"؟پروفیسر کی نگاہوں میں سوال جھلک رہا تھا۔
"جی"۔میں نے جواب دیا۔
"یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں عارف کو سولہ نمبر تم سے کم دے دوں،یہ بھی کوئی ناممکن نہیں کہ تمھارے کُل نمبر عارف سے سولہ نمبر زیادہ ہو جائیں،یہ بھی حقیقت بن سکتی ہے کہ عارف کی دوسری کیا تیسری پوزیشن بھی نہ آنے پائے۔
"کیا واقعی ایسا ہوسکتاہے"؟میں نے پروفیسر کی طرف پر امید نگاہ سے دیکھا۔
"دنیا میں کیا ممکن نہیں؟ نظام دنیا ممکنات کی آس پر ہی چل رہا ہے"۔پروفیسر نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر کہا۔
جنہوں نے ایسا معاشرہ اور ایسا سسٹم قائم کیا ہے آخر ان کی بہنیں بیٹیاں بھی تو اس مرحلے سے گزری ہوں گی یا گزریں گی میں نے دل کو تسلی دی۔میں نے سسٹم ،معاشرے اور اخلاقیات کو دل ہی دل میں گالی دی اور بولی" سر میں کامیابی کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہوں"۔
پروفیسر نے میری طرف دیکھا اور میں نے نظریں جھکا لیں۔وہ اٹھے اور کمرے کا دروازہ بند کرنے لگے اور میں خود کو ذہنی طور پرانتہائی محنت ،انتہائی توجہ اورانتہائی لگن کے لیے تیار کرنے لگی۔