April 19, 2013

جوئے شعر لانا-حصہ اول

Joe shair lana-hissa awal

 لیں جی پھر شام آگئی ہے، آج پھر ابا جی سے جھڑکیاں پڑی ہیں، ٹیوشن کا کام نہ کرنے پر استاد صاحب کے ہاتھوں دوزخ سے بچاؤ کے ٹیکے لگے، ایک اوور میں چار چھکے لگ گئے اور سب سے آخر میں گھر پہنچا تو بڑے بھائی صاحب میرے کھانے پر ہاتھ صاف کر چکے تھے ایسی صورت حال میں کوئی کیونکر جیے؟


 ابا جی ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں پڑھو، پڑھو اور پڑھو،لیکن آخر یار کوئی حد بھی ہوتی ہے پڑھائی کی۔ کالج سے ہوآئے ، ٹیوشن سے ہوآئے، ہوم ورک ہو گیا، اگلے سال کے پرچوں تک کی تیاری کر لی اب اور کیا پڑھیں؟ اب بندہ ایف اے میں ہوتے ہوئے پی ایچ ڈی تو نہ کرلے۔ جب جھڑکیاں زبانی کی حد پار کرتی ہوئی دستانی تک پہنچی تو ہمیں تشویش ہوئی کہ یار یہ کام خطرناک ہے تو ہم نے دو دھاری نسخہ آزما ڈالا۔ کچھ عرصہ تو سکون رہا ابا جی سمجھے کہ چلو بچہ پڑھنے لگ گیا ہے مگر ایک دن ابا جی نے وہ سوال کر ڈالا جسکا جواب صرف مجھے آتا تھااور بجائے شاباشی کے روز روز کی جھڑکیاں مستقل ہمارا مقدر بن گئیں۔ سوال تھا یہ عمران سیریز اور جاسوسی ڈائجسٹ کون پڑھتا ہے اور میرا جواب تھا میں۔ اور اس جواب نے ہماری پڑھائی میں دلچسپی پر کافی روشنی ڈال دی۔ اللہ پوچھے گا بڑے بھائی سے۔۔۔۔۔

تیسری کلاس سے لیکر اب تک کی تاریخ تک ہم روز ٹیوشن پڑھنے جاتے ہیں۔ اب نہ ہی ہمیں تیسری جماعت میں ٹیوشن پڑھنے کی تُک سمجھ آئی تھی نہ اب گیارہویں میں ٹیوشن جانے کی منطق پلے پڑتی ہے چلو چھوٹے موٹے اختلاف اپنی جگہ مگر مجھے ٹیوشن اور استاد صاحب سے تین بڑے اختلاف ہیں۔
1۔اتنا بڑا ہو گیا ہوں اب مجھے ٹیوشن کی کیا ضرورت ہے وہ بھی ایک استاد سے، استانی ہو تو کوئی بات بھی ہو۔۔۔
2۔استاد صاحب فرماتے ہیں کہ یہ کام گھر سے کر کے آنا۔بھائی! اللہ کے بندے ! یہ کام گھر ہی کرنا ہے تو آپ کے پاس آنے کی کیا ضرورت ہے؟انکا اصرار ہے کہ یاد گھر سے کر کے آؤ اور ہمارا احتجاج ہے کہ ہم یاد وہیں بیٹھ کر کریں گے۔
3۔وہ فرماتے ہیں جس جگہ استاد کی مار پڑ گئی وہ جگہ جہنم کی آگ سے آزاد ہوگئی۔انکا کہنا سر آنکھوں پر اگر اب واقعی ان کو اسلام کی خدمت کا اتنا ہی شوق ہے تو بہتر طریقہ یہ ہے کہ روز ایک نیا لڑکا پکڑا اسکے سارے جسم پر جوتیوں سے دم کیا اور اسے فارغ کر دیا مگر یہ تو کوئی بات نہ ہوئی نہ کہ ایک ہی بیچارے کو روز روز جہنم سے بچاؤ کے ٹیکے لگائیں جائیں کوئی ان کو سمجھائے کہ اوور ڈوز بھی کسی چڑیا کا نام ہے یا نہیں؟
ادھر ابا جی کو کہو تو وہ اگلے روز استا د صاحب کو جا کر کہیں گے "ماسٹر جی بچہ آپ کی شکایت کر رہا تھا ہم نے تو کہا ہے ماس آپکا ہڈیاں ہماری" اور ماسٹر صاحب فیس کی طرح ماس بھی وصول کرنے کے چکر میں ہی رہتے ہیں۔

 بدقسمتی سے تمام پاکستانیوں کی طرح میں بھی کرکٹ کے بخار میں مبتلا ہوں اور بہت بری طرح مبتلا ہوں کھیلنا ہو یا دیکھنا ہر دو صورتوں میں دنیا سے بیگانہ ہونا لازمی ہے۔ اگرچہ بارہا بے عزت ہونے کے باوجود اندازِ جنوں چھٹ نہ سکے اور شوق جوں کا توں برقرار رہا۔ بس پھر خود کو شعیب اختر سمجھتے ہوئے بالنگ کراتے ہیں اور اکثر پتہ نہیں مسئلہ ردھم میں پڑ جاتا ہے یاایکشن درست نہیں رہتا یا گرِپ صیح نہیں ہوتی یا پاؤں ٹھیک نہیں پڑ رہا ہوتا جسکی وجہ سے اسکور کھانے والوں میں سرِ فہرست ہمارا ہی نام ہوتا ہے مگر ٹیم کے کپتاں ہونے کیوجہ سے کوئی چوں چاں نہیں کرتا مگر ہمارے موڈ پر اسکے ناخوشگوار اثرات برابر مرتب ہوتے رہتے ہیں۔  

بڑا بھائی ہونا بھی ایک نعمت ہے مگر تب جب آپ خود بڑے بھائی ہوں۔ جن دوستوں کو چھوٹے ہونے کے دردناک تجربے سے گزرنا پڑا ہے وہ ہی میرا درد سمجھ سکتے ہوں گے۔ بڑا بھائی جتنا نرم دل، ہمدرد، دوست کیوں نہ ہو اپنا بڑا ہونے کا حق جتلائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ویسے تو میری اپنے بڑے بھائی سے دوستی ہے مگر صرف تب تک جب تک وہ چاہے۔ ابا جی کو ہماری شکایتیں لگانا انکا فرضِ اولین ہے۔ ہمارے حصے کا کھانا بھی اکثر وہ ہی نوش فرماتے ہیں۔ ان کے چھوٹے موٹے حکم بجا لانا ہمارا فرض قرار پایا۔ اب آپ تھکے ہارے گھر پہنچے بڑا بھائی جو ابا جی کا لاڈلابھی ہے ،استاد صاحب سے بھی دوستی ہے اے سی میں آرام فرما ہیں ہمیں دیکھتے ہی حکم صادر ہوا "پانی پلاؤ"! میں نے دوستی آزماتے ہوئے کہا یار خود بھی کوئی کام کر لیا کرو میں تھک گیا ہوں بس دوستی ختم۔ "میں کیا کہہ رہا ہوں"؟ میں بولا " کیا کہہ رہے ہو"؟  "امی جی۔۔۔" بھائی چیخا۔  "میں تو دل دیکھ رہا تھا امی کو کیوں تکلیف دیتے ہو میں لا رہا ہوں نہ پانی"۔ اور اسی دوران پاؤں خودبخود واٹر کولر کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔

یارو انصاف کر و ۔اس صورت حال میں کوئی کیونکر جیے؟چکی کے چار پاٹ پیسے جا رہے ہیں ہمکو چاروں طرف سے۔ اور ان سب سے بڑھ کر کسی لڑکی کا ہم کو منہ نہ لگانا اپنی جگہ۔

اب آخر کچھ بہانہ تو چاہیے تھا نا جینے کالیکن سمجھ میں پہلے کبھی کچھ آیا تھا جو اب آتا۔ آخر اس موقع پر یار دوست ہی کام آئے اور مختلف مشورے ملتے رہے جن میں جو ہمیں سب سے بھایا وہ شعر گوئی تھا۔ اردو کی تاریخ میں ہر شاعر نے اپنے اوپر توڑے جانے والے ظلم و ستم کو شعروں میں ہی بیا ن کیا اور اپنے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا ازالہ کرنے کی کوشش کی اور اس فہرست میں سب سے نیا اضافہ ہم تھے۔

 اس سلسلے میں جو سب سے پہلا مسئلہ پیدا ہوا وہ تخلص تھا۔غالبؔ ،میرؔ ،فیضؔ ،فرازؔ ،ناصرؔ ،مجازؔ ،جوشؔ غرض ہر اچھے ہر مشہور لفظ پر یہ لوگ پہلے ہی قابض تھے۔پہلے تو خیال آیا کچھ ایسا رکھ لیا جائے مثلاً فراقؔ ۔اب اپنے فراقؔ صاحب کے کلام کو بھی نااہل یار دوست اپنا ہی کلام سمجھیں گے مگر اس موقع پر ہمیشہ سونے والے ضمیر صاحب جاگ گئے جو کہ ان کے معمول میں شامل ہے کہ عین اس وقت جاگنا جب انکی بالکل ضرورت نہ ہو۔ بہرحال تخلص کا مسئلہ جوں کا توں تھا۔سوچا علاقے کے نام پر رکھ لیا جائے تو گاؤں کا نام بی بی پور تھا لہذا بی بی پوری ٹھیک نہ تھا موضع حلوا پور تھا اب حلوا پوری۔۔۔خیر شہر جھنگ تھا جس سے جھنگی بھنگی کا ہم قافیہ ہونے کے باعث واہیات اور جھنگوی خطرناک تھا۔مختلف مشورے چلتے رہے آخر ایک رنگین شام ایک کتاب میں ہمیں تین ماہ اور اکیس دنوں کی محنت کا صلہ مل گیااور ہم نے اردو شاعری میں ایک نئے باب کا اضافہ کرتے ہوئے اپنا تخلص انگریزی لفظ "کزن"   Cousin پسند کر لیا-

 اس سے ایک تو یہ فائدہ ہوا کہ یہ اپنی نوعیت کا واحد تخلص تھا۔ اور ہم جو اپنی شاعری کو انگریزی میں ترجمہ کر کے انگریزوں کو برآمد کرنے کا سوچ رہے تھے کے مقصد کے لیے بھی عین موزوں تھا کہ بے چارے انگریز ڈکشنری ڈھونڈتے پھرتے کہ
 اس عمر میں اتنی بھی پھرتی اچھی نہیں ہے فرازؔ
 ایک لات تیری قبر میں ہے کچھ تو خیال کر
 اب اس کو انگریز میں ترجمہ کربھی دیا جائے تو
 Over acting is not good in this age Fraz
 You already have one leg in grave

 بےچارہ انگریز فراز کا ترجمہ کرتا ہی ہلکان ہو جائے۔ جبکہ اس کے برعکس ہمارے تخلص میں شعر اردو انگریزی دونوں میں مناسب لگتا ہے۔
 کہہ تو دوں تو میرا ہے کزنؔ
تمام زمانے کو پڑ جانا ہے دورہ
If I say you are mine cousin
Whole world will face heart attack

 دوسرا اس تخلص سے یہ مطلب بھی وابستہ تھا کہ کبھی کسی خاتون کو ہم کو بلانا پڑ بھی گیا تو وہ کزن کہہ کر بلائے گی جس سے اپنائیت جھلکتی ہے گویا جان پہچان سے پہلے ہی رشتہ داری سی قائم ہو جائے گی۔ ہم نے سب کو بتا دیا آئندہ ہمیں اسی نام سے لکھا اور پکارا جائے وگرنہ اداراہ ذمہ دار نہ ہو گا۔اب کزن کے بعد ہمارا پورا نام ملاحظہ کریں
 ’سید ذولقرنین آغا قزلباش کزنؔ'

(جاری ہے)