April 7, 2013

جوں کا خوں

Joon ka khoon

جوں گہرے رنگ کا ایک چھوٹا سا کیڑا ہے جو آپکے بالوں میں پایا جاتا ہے ۔اس کی خوراک انسانی خون ہے۔ جب یہ خون چوستا ہے تو خارش محسوس ہوتی ہے۔ اس کے بچے سفید رنگ کے ہوتے ہیں اور اس کے مرنے پر ٹخ کی آواز آتی ہے-اس کا تعلق بے شرموں کی نسل سے ہے کہ اگر آپکے سر میں پایا جائے تو سب لوگوں کے سامنے آپکو خارش کروا کروا کر شرمندہ کراتا رہتا ہے اور اگر سر میں جوں، جوں کی توں موجود رہے تو خارش کر کر کے آپ بھی بے شرم ہو جاتے ہیں۔

خارش کی بھی نہ جائے اور برداشت کرنا بھی مشکل
یوں تو جوں کے بارے بھی انگریزوں نے تحقیق کر رکھی ہے کہ اور کوئی کام ہے نہیں ان کو ہر الٹی پلٹی شے کی تحقیق کرتے پھر رہے ہوتے ہیں لیکن ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنی تحقیقات آگے لائیں تو ہمارے نظریے کے مطابق جوں کا زندگی کا سائیکل تین پہیوں پر مشتمل ہوتا ہے کہ سب سے پہلے آپکے دوست سے آپکے سر میں پڑنا، پھر آپکے سر میں سفید رنگ کی نئی نسل تیار کرنا جس کو لیکھوں کا نام دیا جاتا ہے اور آخر میں آپکی امی یا باجی کے ہتھے چڑھ کر ٹخ ہونا۔

کچھ لوگ تو کہتے ہیں بندروں اور انسانوں میں بنیادی فرق ہی جوؤں سے روا رکھا جانے والا سلوک ہے کہ بندریائیں جوئیں نکال کر کھا جاتی ہیں جبکہ خواتین انکو نکال کر مار دیتی ہیں۔بلکہ کچھ لوگ تو انسان کے اشرف المخلوق ہونے کا ثبوت بھی اِسی واقعے سے لاتے ہیں کہ انسان جانوروں (بندروں) سے بہتر حس ذائقہ رکھتا ہے۔

جوئیں نکالنا بھی ایک فن ہے۔دیہات میں وہ خواتین عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں جنکی نگاہ سے کوئی جوں بچ کر نہیں جانے پاتی-ان خواتین کو پھوہڑ سمجھا جاتا ہے جنکو جوؤیں نہ نکالنا آتی ہوں۔گویا کھانا پرونا صفائی ستھرائی لکھائی پڑھائی کے ساتھ ساتھ جوؤں کو قلع قمع کرنے کا فن بھی سلیقہ مندی میں شامل ہے۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ شعبہ اس لیے سلیقہ مندی میں شامل کیا جاتا ہے کیونکہ وہ خواتین جوؤں پر ہاتھ صاف کرتے کرتے ایک دن وہ اپنے شوہروں پر ہاتھ صاف کرتی ہیں لیکن ہمیں اس معاملے کے واضح ثبوت نہیں ملے کہ ہم بہت سی ایسی خواتین کو جانتے ہیں جنہیں جوئیں تو پکڑنی نہیں آتیں لیکن انکے شوہروں پر انکی پکڑ خاصی مضبوط ہے۔بہرحال وجہ جو بھی رہی ہو ایسی خواتین جن کو سر سے جوں نکالنا نہیں آتا اکثر بڑی بوڑھیوں کے سروں سے جوں کی تلاش میں ناکامی پر اچھے خاصے زبانی القابات سے عین موقع پر نوازی جاتی ہیں۔ جب تین چار بار عزت کرواتی ہیں تو اگلی بار سر میں سے جوئیں تلاش کرنے بیٹھتی ہیں تو حسب معمول جوں نہ ملنے پر یہ نہیں کہتیں کہ "چاچی جوں نہیں ملی"، بلکہ ناخن سے ناخن ٹکرا کر ٹخ ایسی آوازیں پیدا کرتی ہیں جیسے جوئیں مار رہی ہوں۔ سادہ لوح خواتین تو انکے فریب میں آجاتی ہیں لیکن تجربہ کار بوڑھی خواتین ان سے بھی ایک قدم آگے ہوتی ہیں انکی شہرت کے پیش نظر ہر ٹخ کی آواز پر ناخن بھی دیکھ لیتی ہیں کہ خون لگا ہے یا نہیں کہ جن کی نظر ایسی خوردبینی ہو کہ کسی پر ایک نظر ڈال کر اس کا کچا چٹھا کھول کر سنا دیں اپنے سر کی جوؤں کی انکو خبر نہ ہوگی بھلا۔

کچھ لوگ جوؤں کو جانوروں میں صفائی کی کمی کے باعث پڑنے والے چچڑ کے خاندان کا بتاتے ہیں تاہم چچڑ تو اب ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں۔مرطوب علاقوں کے رہنے والے خواتین و حضرات کٹھمل سے تو بخوبی واقف ہوں گے۔جوئیں بھی ان کی دور پار کی رشتہ دار ہیں تاہم اسکی حکومت فقط سر اور سر کے بالوں تک محدود رہتی ہے جبکہ کھٹمل تو شہزادہ بندہ ہے تمام جسم پر مٹر گشتی کرتا ہے جہاں کاٹے کون پوچھنے والا ہے۔


ویسے تو جوں کا حلقہ سر اور سر کے بالوں تک محدود ہے البتہ کچھ لوگ کہتے ہیں مدتوں نہ نہانے والوں کی داڑھی میں بھی جوئیں پائی جاتی ہیں۔ دبئی میں رہنے والے کئی احباب خاص طور پر سکھوں پر انگلیاں اٹھایا کرتے تھے لیکن میں اس بات کی تصدیق کرنے سے قاصر ہوں کہ کبھی کسی سکھ یا نہ نہانے والے بندے کے بالوں کو اس نگاہ سے نہیں دیکھا۔

ایک تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ جوں لال بیگ کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور کسی زمانے میں اس کو قحط کا سامنا کرنا پڑا تھا تو یہ بیچاری سکڑ کر جوں رہ گئی۔ نیچے وکیپیڈیا سے چوری شدہ تصویر میں اس کی لال بیگ سے ملتی جلتی شکل اس نظریے کی تصدیق کرتی ہے اور اس کا رنگ بھی کسی قحط زدہ کا سا ہے اور سب سے بڑھ کر اس کی ایک سر سے دوسرے سر میں پرواز لال بیگ کی نسل کا ہونے کا ثبوت ہی ہے۔ ویسے بھی اب لال بیگ بے شرم کے استعارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور جوں بھی اسی خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔

اے جوں ہمیں برباد نہ کر
 جوئیں کہاں سے آتی ہیں اس بات پر کم لوگ ہی روشنی ڈال سکتے ہیں کہ جس سے پوچھیں وہ یہی کہتے ہیں کہ ہمجولیوں سے پڑی ہیں ۔کوئی نہیں کہتا کہ میری اپنی گھر کی پیداوار ہے۔ہمیں تو بعض اوقات یہ امریکہ اور اسرائیل کا جراثیمی ہتھیار لگتا ہے اور اس کی جراثیم جیسی جسامت اس نظریے کو تقویت بھی دیتی ہے۔

جوؤں کا گاؤں میں عام علاج کوڑا (اردو :کڑوا)تیل بھی ہے۔کوڑا تیل جو اسوں یا تارا میرا کے نام سے جانا جاتا ہےکی بو اتنی ناقابل برداشت ہوتی ہے کہ ایک بندہ لگائے تو اس کمرے میں موجود جوئیں تو جوئیں بندے تک بھاگ جائیں۔جس کو لگتا تھا اس کی جوؤں کے ساتھ دماغ بھی چھٹی کر جاتا تھا۔ویسے جیسے ہماری نئی نسل ہے سب تارا میرا والے تیل کا ہی اثر لگتا ہے۔

جب چھوٹے تھے تو ہمارے چند کزنوں کو اکثر جوؤں کی شکایت رہتی تھی تو ہم انکو چڑانے کے واسطے کوئی الٹی سیدھی سی شکل بنا کر کہتے کہ یہ جوئیں کیچ catch کرنے والا آلہ ہے کہ اس کو جیسے ہی سر کے اوپر لائیں تمام جوئیں مقناطیس اور لوہے کے مانند اس سے چمٹ جائیں گی گویا جوں اور آلہ نہ ہوا ڈالر اور پاکستانی قوم ہو گئی۔تاہم ہمارا قبل از وقت وژن ابھی تک قبل از وقت ہے اور ایسی کوئی ایجاد نہیں ہونے پائی تاہم مارکیٹ میں اینٹی لائز (Anti-lice) شمپو ضرور آ گئے ہیں جن کو استعمال کر کے امی ناخنوں پر خون دکھائے بغیر جوئیں نکال سکتی ہیں۔اور اگر نہ نکلیں تو سلیقہ شعاری پر کوئی حرف نہیں آتا ۔تمام الزام شمپو کی دو نمبری اور آپ کے ہم جماعتوں کی اَمیوں پر دھرا جا سکتا ہے جن کے پاس اتنا وقت بھی نہیں کہ اپنے بچوں کی جوئیں نکال سکیں۔

 انگریزی میں جوؤں کو لائز کہتے ہیں اور اس کے تدارک کے شمپو کو انٹی لائز شمپو کا نام دیا۔جس کو ہم اپنی نا اہلی کی بنا پر اینٹی لائز Anti lies یعنی جھوٹ کے تدارک والا شمپو سمجھتے رہے کہ ہمارے نزدیک جوئیں یا تو باجی اور امی کے ہاتھوں مر سکتی ہیں یا کوڑے تیل کی خدمات سے۔ جدید ٹیکنالوجی سے ہماری آگہی نہ تھی۔ویسے اگر کوئی ایسا شمپو یا صابن بن جاتا تو دنیا سدھر جاتی ۔لیکن جب اپنے اور اپنی قوم کے اعمال دیکھتا ہوں تو جھوٹ کی اہمیت مسلم ہو جاتی ہے کہ جس دن جوؤں کے تدارک کے ساتھ ساتھ جھوٹ کے تدارک والا شمپو ایجاد ہوگیا جوؤں کے ساتھ ساتھ ہماری بھی خیر نہیں۔