Pakistan se bahir (Europe main) kisi pakistani se pehli mulaqat
ملتان سے وارسا کا 30 گھنٹے کا سفر ختم کر کے جب ہم وارسا کے ہوائی اڈے پر پہنچے تو پتہ لگا کہ ہمیں یونیورسٹی کی طرف سے جس نے لینے آنا تھا وہ فلائیٹ کی تاخیر کی وجہ سے واپس جا چکا ہے اور ہم جو پہلی بار گھر سے باہر نکلے تھے گوروں کےدیس میں بے یارو مددگار کھڑے تھے۔گھر بتانا چاہا کہ ہم خیر خیریت سے پولینڈ پہنچ چکے ہیں تو پانچ یورو کا کارڈ ہیلو ہائے میں ہی اگلے جہاں پہنچ گیا جس سے ہمیں یورپ اور آسمان کی قربت کا احساس ہوا۔
یونیورسٹی کے تنظیمی امور سنبھالنے والے کو فون کیا تو وہ بنگالی نکلا شہریت کے حساب سے بھی اور حرکات کے حساب سے بھی۔اس نے جواب دیا آپ کا جہاز تاخیر سے آیا ہے ہمارا کیا قصور۔اب آپ دکان سے سم لو پھر اس نمبر سے مجھے فون کرو پھر میں آپ کو اُس نمبر پر تحریری پیغام کی صورت میں پتہ بھیجوں گا آپ ٹیکسی کر کے چلے جاؤ اس ہاسٹل میں آپ کی رہائش کا بندوبست کر دیا گیا ہے۔
تب ہمیں پتہ نہ تھا کہ پولینڈ میں کسی پولے یا غیر پولے کو شام کے بعد فون کرنے کا مطلب مجلس خاص کے رنگ میں بھنگ ڈالنا ہوتا ہے۔
بنگالی بابو کے مطابق ٹیکسی والے نے 10 یورو میں پہنچا دینا تھا لیکن جب ٹیکسی والا خدا کے پچھواڑے میں واقع اس ہاسٹل میں چھوڑ کر گیا تو وہ ٹیکسی کا میٹر 25 یورو دکھا کر منہ چڑا رہا تھا۔اور ہمارا پہلا دن ہر خرچ کیے گئے یورو کو ایک سو دس سے ضرب دینے میں ہی گزر گیا۔
ہم دل ہی دل میں یورپ آنے کے فیصلے، اپنے لٹنے اور یونیورسٹی کے عمدہ تعاون پر دل کو سمجھاتے ہاسٹل انچارج جس کا نام دانیال بتایا گیا تھا کو ڈھونڈنے لگے۔ہم سمجھے یہ بھی کوئی بنگالی ہو گا کہ ہو نہ ہو ایک بنگالی نے دوسرے بنگالی کو فائدہ پہنچایا ہوگا لیکن وہ بنگالی نہ تھا لیکن بنگالی تلفظ کا شکار ضرور تھا کہ وہ اصل پولش نسل کا پولا تھا جس کا ڈینئل تھا اور ہمارے بنگالی صاحب نے اسکو دانیال بنا دیا تھا۔
وہ ہاسٹل طلبہ کا ہاسٹل نہ تھا بلکہ سستا ہوٹل جسکو یورپی ہاسٹل بولتے ہیں قسم کا ہوٹل تھا جس میں جو چاہے رات گزار سکتا تھا اور ہماری یونیورسٹی والوں نے عارضی طور پر ان سے معاہدہ کر رکھا تھا ۔وہاں رہنے والے دو گروپ تھے ایک ہماری یونیورسٹی کے طلبہ اور دوسرے ٹرک ڈرائیور۔ٹرک ڈرائیور تو ویسے ہی ٹرک ڈرائیور ہوتے ہیں جبکہ طلبہ بھی اکثر وہ تھے جو محض اس وجہ سے آئے تھے کہ کسی طرح اپنے ملکوں سے نکلیں اور یورپ میں کسی طرح گھس سکیں۔ اس زمانے میں پولینڈ کا ویزا تمام یورپ کا نہیں ہوتا تھا بلکہ یہ صرف پولینڈ کے لیے ہوتا تھا۔
لیکن اصل کہانی اس ہاسٹل کے لاجواب ماحول کی نہیں بلکہ یورپ میں ملنے والے پہلے پاکستانی سے پہلی ملاقات کے بارے میں ہے۔
دانیال صاحب کی رہنمائی میں ہم اس کمرے میں پہنچے جہاں دو الماریاں اور دو اوپر نیچے والے پلنگ لگے تھے یعنی چار بندوں کے لیے اس کمرے میں چار بستر دو الماریاں اور ایک میز میسر تھی۔پلنگوں کے نیچے والی منزل ہم سے پہلے پہنچنے والے ایک افریقی اور ایک پاکستانی نے اپنے نام کر رکھی تھیں۔میں نے اس نیچے بیٹھے پاکستانی کو جو آئی فون پر انگلی سے کھیلے جا رہا تھا کو دیکھا اور اپنا ہینڈ بیگ اس کے اوپر والی منزل پر پھینک کر بستر اپنے نام کر لیا جبکہ میرے دوست نے افریقی کے پلنگ کے اوپر والے پلنگ پر اپنا سامان پھینکا اور ہمارا پولینڈ کا پہلا اہم ترین کام یعنی خیر خیریت سے پولینڈ پہنچنا مکمل ہو گیا ۔
دل تو ہمارا چاہ رہا تھا کہ چادر تانیں اور گھوڑے گدھے ہینڈ بیگ اور سفری بیگ بیچ کر سو جائیں لیکن اگلی صبح کپڑے کہاں سے آتے تو ہم نے کچھ اس ڈر سے اور کچھ آنتوں کی چیخوں کے ڈر سے پروگرام ملتوی کیا اور کچھ کھانے کی سوچنے لگے۔اب پاکستانی دیکھ کر ہم نے سوچا کہ اس سے دکان کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی اور پولینڈ کے حالات بھی معلوم کر لیں لگے ہاتھوں۔ان آئی فون والے بھائی کا نام ذیشان تھا اور ہمارے اور ان کے درمیان تاریخی گفتگو یوں ہوئی
"سلام"
"سلام"
"میں علی یہ تصور"
"میں ذیشان ۔دبئی سے آیا ہوں"
میں نے طنزیہ لہجے میں کہا" آئے تو ہم بھی دبئی سے ہیں لیکن ہیں پاکستانی۔"
زیشان بدستور آئی فون پر انگلی پھیرتے ہو ئے بولا ( میں نے زندگی میں پہلا آئی فون اور ٹچ اسکرین والا فون دیکھا تھا اس لیے میں سمجھ نہ سکا کہ یہ موبائل کے ساتھ کیا کرنا چاہ رہا ہے)" سکار بیک یونیورسٹی میں آئے ہو؟"
"جی۔"
"ایرپورٹ سے ٹیکسی میں آئے ہو؟"
"جی"
"کتنے پیسے لگے؟"
"پچیس یورو" ہم نے تپے ہوئے دل کے ساتھ جواب دیا۔
"پچیس یورو؟؟ ہا ہا ہا –پیروں کے نیچے سے تھوڑی سے زمین کھسکاؤں؟میں تو آدھے یورو میں آیا ۔میرا ایک دوست یہاں رہتا ہے وہ ایرپورٹ پر لینے آیا ہوا تھا میں نے آدھے یورو میں بس ٹکٹ خریدی اور یہاں پہنچ گیا۔چلو کوئی نہیں اللہ کی سپرد۔۔"
اساڑھے چوبیس یورو کا نقصان سن کر دل بیٹھ سا گیا ۔
"ایم بی اے کرنے آئے ہیں؟"
"جی"۔ اعتراف جرم میں ہم دونوں نےسر ہلایا۔
"پیروں کے نیچے سے تھوڑی سے زمین کھسکاؤں؟"
"چپ۔۔۔" شاید وہ دو دن قبل پہنچنے کے تمام بدلے ابھی اتارنا چاہ رہا تھا۔
"یونیورسٹی ایم بی اے نہیں کرا رہی بلکہ ماسٹرز کرا رہی ہے۔"
میں نے اس دن ہی سوچ لیا " ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے"۔اسانوں کی۔ نوکری تو ایم بی اے کے بعد بھی نہیں ملنی
"چلو کوئی نہیں آ گئے ہیں تو مل جل کر کچھ کر لیں گے اور سنا ہے کلاسیں بھی اگلے ہفتے شروع نہیں ہو رہیں۔"
پیسوں کے بعد دوسرا افسوس ہوا کہ پہلے بتا دییتے منحوس یونیورسٹی والے ہمیں ای میل کر دیتے ہم کچھ روز اور گھر رہ لیتے۔
"پیروں کے نیچے سے تھوڑی سی زمین کھسکاؤں؟سنا ہے کہ یہاں پولینڈ میں سمر سمسٹر کی کوئی وقعت نہیں یعنی کہ اگر کلاسیں ہوں بھی سہی تو پڑھنے نہ پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔"
"چپ۔۔۔"ہم نے سوچا انہوں نے آتے ہی یونیورسٹی میں پیروں کے نیچے سے زمین کھسکانے کا کورس کیا ہے شاید۔
"سنا ہے یونیورسٹی بھی بلیک لسٹ ہونے والی ہے۔"
"چپ۔۔۔" بندہ کیا کہے اب
"
"چلو یار کوئی نہیں آ گئے ہو تو مل جل کر کچھ کر لیں گے –اللہ کی سپرد"
"پیروں کے نیچے سے تھوڑی سی اور زمین کھسکاؤں؟"
"چپ۔۔۔" باقی کوئی زمین کھسکنے کو بچی ہی نہ تھی البتہ اب ہمارا دماغ ضرور کھسکتا جا رہا تھا۔
"ویزے کا کنسلٹنٹ نے کیا کہا تھا کہ جاتے ہی یورپ کا لگ جائے گا؟"
"جی۔۔"ہم نے یوں شرمندگی میں سر ہلایا جیسے کنسلٹنٹ کی بجائے ہم نے کہا تھا۔
"وہ بھی نہیں لگے گا۔ کم از کم ایک سال تو نہیں لگتا اور سال بعد بھی مشکل پروسیجر ہے تو آرام سے پولینڈ میں ہی بیٹھو! ویسے آپ کے آنے کا اصل مقصد کیا ہے؟"
"پڑھائی –" ہم دونوں یک زبان بولے۔
"اور آپ؟"
"میں بھی پڑھائی کرنے آیا ہوں ۔اب آ گئے ہیں تو کوئی نہیں مل کر کر لیں گے –اللہ کی سپرد۔"
میں نے سوچا میں کونسا یورپ کی سیر کرنے آیا ہوں نہیں دیتے تو اپنے سر میں ماریں یورپ کا ویزا۔
"
"یہ دوسرا کون رہتا ہے ؟" میں نے موضوع بدلنا چاہا۔
"یہ کالا ہے۔ یہ بھی ایک چیز ہے۔رات کو جب آتا ہے قبر سے مردے جاگ جاتے ہیں۔اسکے بارے میں بتایا نہیں جا سکتا جب ساتھ رہیں گے تو آپے سمجھ لگ جائے گی۔"
یہ ذیشان کی اولین تمثیل میں واحد سچی بات نکلی کہ کالے نے وہ کیا کہ کسی دن الگ بلاگ میں اس کی کہانی پیش کی جائے گی لیکن ہم نے اسکی اس بات کو سنجیدگی سے نہ لیا۔
"یہ اسٹیڈیم میں بزنس کرتا ہے۔اسٹیڈیم کا پتہ ہے؟"
"نہیں؟" اس وقت وہ ہم سے ہمارا پتہ پوچھتا ہمیں وہ معلوم نہ تھا کجا پولینڈ کا کچھ بتا سکنے۔
"ارے یار یہ ایک ڈھابا قسم کا بازار ہے جہاں کالے اور روسی غیر قانونی تجارت کرتے ہیں اور سنا ہے کہ وہاں ٹینک سے لیکر سوئی تک مل جاتی ہے۔"
ذیشان کی مسلسل شادی بد خبری سے تنگ آ کر میں نے پوچھا" یہاں دوکان کہاں ہے۔ہم کچھ کھانا چاہتے ہیں۔"
پر ذیشان کو دو دن بعد کوئی پہلے پاکستانی ہتھے لگے تھے اور وہ گھر کی تمام اداسی ہم پر نکالنا چاہتا تھا بولا کہ" ایک تو بھائی یہ پولینڈ ہے یہاں آٹھ بجے تمام دکانیں بند ہو جاتی ہیں دوسرا نزدیک ترین دکان 20 منٹ کیے فاصلے پر ہے جو کہ پٹرول پمپ کی کنٹین ہے اور حرام حلال کا بھی دھیان کرنا بھائی۔"
لیکن ساتھ ہی اس نے ایک بار پھر اپنا تکیہ کلام کہا "پر کوئی نہیں یار اب آ گئے ہیں تو مل جل کر کچھ کر لیں گے باقی اللہ کی سپرد۔"
"یونیورسٹی سے ہو آئے۔" ہمارا بھی عزت افزائی کا دل کر رہا تھا شاید۔
"
"ہاں جی گیا تھا دوست کے ساتھ ایک کلاس ہو رہی تھی ۔میں نے استانی کو ہاتھ ملانا چاہا تو اس نے ڈانٹ دیا کہ میں تمھاری استانی ہوں دوست نہیں میں تو بھاگ آیا ۔بڑی سخت ہیں بھئی استانیاں یہاں۔"
ہم دونوں نے دل میں سوچا بےچارہ گوری دیکھ کر روک نہیں سکا اپنے آپ کو۔استادوں کو اور خاص طور پر استانیوں کو کوئی ہاتھ ملاتا ہے؟
ہمیں لگنے لگا کہ ذیشان قدرتی طور پر ایسا ہے۔وہ جان بوجھ کر چول ہونے کی ادا کاری نہیں کر رہا۔
اب ذیشان نے مزید کچھ زمین کھسکانا چاہی۔"شادی ہو گئی؟"
"ہاں۔"
"مر گئے۔۔"
ویسے تو ہمیں شادی سے اگلے روز ہی پتہ لگ گیا تھا کہ مر گئے لیکن ہم ذیشان کے مرنے کی بابت کچھ نہ سمجھے
"
"بچے تو نہیں ہیں؟"
"ہیں۔۔"
"ہو گیا کام۔"
مجھے لگا میں نے بچے پیدا نہیں کیے اغوا کیے ہیں یا شاید پولینڈ میں بچے پیدا کرنا جرم ہے۔
میں نے کانپتی آواز میں پوچھا "کیوں بھائی شادی اور بچوں کا کیا تعلق ؟"
"بھائی یہاں سب سے آسان کام یہ ہے کہ لڑکی ڈھونڈو ،شادی کرو ہر کام آسان۔ویزا لو پاسپورٹ لو، رہائش اسکے ساتھ رکھو۔ وہ اپنے ساتھ رکھے گی، کھلائے گی، عیاشی ہی عیاشی۔۔"'
میں سوچنے لگا کہ لڑکی ،شادی ، پاسپورٹ لگتا ہے گھر والوں سے دوری نے خاصا دماغی صدمہ پہنچایا ہے۔
"
"ویزا پر جو لکھا ہے اسے ترجمہ بھی کر کے دیکھا ہے؟"
ہم نے ایک بار نفی میں سر ہلا کر اعتراف جرم کیا
"
"اسکے مطابق ہم نوکری نہیں کر سکتے۔"
میں نے پھر دل کو ڈھارس بندھائی کہ ہم پڑھنے آئے ہیں یا نوکری کرنے۔شیطان نے فوری طور پر اس کے دماغ میں ہمارے خیالات کی پھونک ماری اور اس نے کہا "بھائی ہماری یونیورسٹی کی فیس پورے پولینڈ میں سب سے زیادہ ہے۔ میں نے پتہ کیا ہے۔"
"آپ کا ویزہ کب لگا؟"
"مئی میں ۔" ہم نے جواب دیا۔
"
"میرا تو مارچ میں لگ گیا تھا۔بس ذرا بزنس کے کام تھے جس وجہ سے تب نہیں آیا تھا۔"
اب ہماری باری تھی ۔ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور دل ہی دل میں اسکو گریب لوگ کہہ کر اٹھ آئے کہ اگر ہمارا مارچ میں ویزا لگ گیا ہوتا تو ہم ایک سمسٹر اب تک مکمل کر چکے ہوتے اور بھائی صاحب تمام سمسٹر گزار کر منہ اٹھا کر گرمیوں میں چلے آئے تھے جہاں ان کے مطابق سمر سمسٹر کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی۔ہم دوکان پر جانے کے بہانے وہاں سےچل دیے۔
ہم دونوں نے راستے میں فیصلہ کیا کہ واحد بری خبر سمسٹر کا نہ ہونا ہے (وہ بھی دو ہفتے بعد شروع ہو گیا تھا) باقی شیخ ذیشان صاحب کو انکے حال پر جو کہ ماضی میں واقع ہے چھوڑ دیا جائے۔
بعد کے تین سالوں میں ذیشان شیخ صاحب کی تمام خبریں غلط ثابت ہوئیں۔تاہم ذیشان سے ہماری دوستی اب تک قائم چلی آتی ہے اور بقول تصور کے جب جب ہمارا دل چولیاں سننے کا کرتا ہے تو ہم شیخ صاحب کو فون کر لیتے ہیں۔