May 25, 2013

موزے پہننے پر پابندی - پاکستان سے ایک خبر

Mouzay pehnny per pabandi. Pakistan se aik khabar

خبر: بجلی کے شدید بحران کے سبب پاکستانی حکام نے سرکاری ملازمین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ دفاتر میں موزے نہ پہنیں۔ ملک کے سرکاری دفاتر میں تمام ائیر کنڈشنرز کو بند کر دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 

یوں تو اس بلاگ میں کوشش کی جاتی ہے کہ سیاسی بات نہ کی جائے لیکن کیا کیا جائے کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ خود بیل کو سینگ گھسیڑنے کی دعوت دے جاتے ہیں۔تو پھر سیاست پر ایک غیر سیاسی بلاگ اور سہی۔

مانا کہ جرابوں کے بے شمار نقصانات ہیں مثلاً خشکی پیدا کرتی ہیں کوئی کوئی تو الرجی کر دیتی ہیں، پاؤں میں فنگس ہو جاتی ہے وغیرہ وغیرہ لیکن موزوں اور بجلی کا تعلق؟ ماروں گٹھنا پھوٹے آنکھ محاورے کا موجد لازماً کوئی پاکستانی رہا ہو گا وگرنہ یہاں کے سرکاری اقدامات دیکھے بغیر اس کو اتنی بڑی حقیقت سمجھ نہ آتی کہ ہمارے ہاں اکثر فیصلےایسے ہی     لا جواب اور بے مثال ہوتے ہیں۔ ڈبل سواری پر پابندی موبائل پر پابندی اور ہفتے کی چھٹی کا فیصلہ ابھی بھولا نہیں کہ اب یہ نیا شاہکار سامنے آگیا۔


یوں تو اس پابندی پر سب سے زیادہ احتجاج ہمارے نزدیک ہوزری فیکٹری کے مالکان و ملازمین اور عطائی ڈاکٹروں کو کرنا چاہیے لیکن بےچارے ہوزری فیکٹریوں والے ویسے ہی لوڈ شیڈنگ کے ہاتھوں اتنے لاچار ہو چکے ہیں کہ وہ کہتے ہیں جو کر لو اب مرے کو کوئی کیا مارے گا۔ادھر عطائی ڈاکٹروں اور خاص طور پر بے ہوش کرنے والے ڈاکٹروں سے اکثر یہ سننے کو ملا ہے کہ جب ان کو ڈاکٹری طریقہ سے بے ہوش کرنے میں ناکامی ہوتی ہے تو وہ دیسی طریقہ استعمال کرتے ہیں یعنی جراب کا استعمال۔تو جراب پر پابندی سے بجلی کا حال بہتر ہو یا نہ ہو بےچارے ڈاکٹر کی روزی تو ماری گئی نہ۔


جب اسکولوں میں تھے تو جب کلاس ختم ہوتی تھی اور اگر اس کمرے سے گزر ہوتا تھا تو ایسے لگتا تھا جیسے کسی اینٹیں بنانے والے بھٹے میں آ گئے ہوں جہاں گوبر سے آگ جلائی جا رہی ہو۔حالانکہ اسکول میں تو ایک ایک کلاس میں چالیس پچاس بچے ہوتے تھے لیکن اب یہاں دفتروں میں پانچ دس بندوں کے ساتھ وہی ماحول ملتا ہے ۔جتنی گرمی ملک میں ہے اور جو بجلی کا حال ہے موزے پہننا ویسے ہی عذاب ہے کہ کون گیلے موزے پہنے رکھنے موزوں سے بہتر ہے کہ تمام جسم پر تولیہ ہی لپیٹ لیا جائے جو ساتھ ساتھ کم از کم پسینہ تو جذب کیے رکھے گا کہ گرمی کم ہونی نہیں اور بجلی نے آنا نہیں۔

یوں تو ہم نے کئی لوگوں کو بغیر موزے بوٹ اور بند جوتی پہنے دیکھا ہے لیکن اس کے بعد جب وہ جوتے اتارتے ہیں اس سے ہمیں اپنے بزرگوں کی یاد آتی ہے جن کے موچی اکثر جوتا بنا کر اسی جوتے سے مار کھاتے تھے کیونکہ جوتے سے بو آتی تھی اور گاؤں میں کہتے تھے کہ حرام جانور کے چمڑے سے بو آتی ہے۔ جبکہ موچی مار کھا کر بعد میں دبے الفاظ میں احتجاج ریکارڈ کرایا کرتا تھا کہ جناب اب میں چمڑا شہر سے لایا ہوں مجھے کیا پتہ حلال جانور کا تھا یا حرام کا۔

بغیر موزے جوتا پہننے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر کسی سے لڑائی ہو جائے جو کہ پاکستان میں رہتے دن میں تین چار بار عین متوقع ہے اور اس لڑائی میں بھڑائی کا موقع بھی آ جائے تو گیلا جوتا انتہائی کارآمد ہتھیار ہے۔ پہلے لوگ نوکیا 3310 کو لڑائی میں استعمال کیا کرتے تھے لیکن ٹچ اسکرین والے فونوں نے لوگوں کی اس سہولت کو چھین لیا ہے کیونکہ یہ تو ٹچ کرنے سے خراب ہو جاتے ہیں لڑائی میں وقت ہتھیار خاک کام آئیں گے تاہم اس کمی کو ہماری حکومت کی اس جراب پابندی پالیسی سے بھی بخوبی پورا کیا جا سکتا ہے کیونکہ ہمارے حکومتیں عوام کے ساتھ کئی سالوں سے یہی کر رہی ہیں کہ" کھلا پسیا ہویا ہو وے تے بندہ رسیا ہویا ہو وے " یعنی جوتا گیلا ہو اور بندہ مارنے والے غصیلا ہو۔ ہم چن چن کر غصیلے بندوں کو ووٹ دیتے آئے ہیں جو حکومت بنا کر ہمیں گیلے قوانین سے خوب مستفید کرتے ہیں۔

موزوں پر پابندی سے کم از کم گھروں میں ماحول ضرور اچھا ہو گا۔ ماحول صرف موزوں کی بو نہ ہونے سے اچھا نہیں ہو گا بلکہ ہر روز صبح شوہروں کی بیویوں پر چیخ و پکار بھی کم کرے گا جو صبح سویرے چیخ رہے ہوتے ہیں کہ بیگم موزے۔۔۔۔ اور بیگم عین موقع پر موزے نہ ملنے کا ذمہ دار ساس یا نند کو قرار دے رہی ہوتی ہیں کہ رات تو یہاں رکھے تھے۔ بچے تو جیسے تیسے بہل جاتے ہیں لیکن شوہر دفتر جاتے وقت کپڑوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا جس سے بیوی کا شک یقین میں بدل جاتا ہے کہ ہو نہ ہو ان کا وہاں چکر ہے کہ پینٹ اٹھا کر کس نے دیکھنا ہے کہ موزے ایک جیسے ہیں یا نہیں اور اس میں بھی ساس اور نند کا ہاتھ ہے۔ اس موزی چکر سے بچاؤ کا واحد حل یہی ہے کہ حکومت موزوں کے ساتھ بنیان وغیرہ پر پابندی لگا کر گھریلو ماحول کو خوشگوار بنائے۔

 لیکن یہ واضح نہیں حکومت اس سلسلے میں کس حد تک سنجیدہ ہے کیا یہ محض درخواست ہے یا اس احکام پر عمل درآمد کیا جائے گا؟ ہماری تجویز اس ضمن میں یہ ہے کہ حکومت ہر دفتر میں ایک بندہ تعینات کرنے کا احکام جاری کرے جو آتے جاتے کی شلوار اور پینٹ اٹھوا کر جرابیں دیکھے اور جس نے پہنی ہو اس سے موقع پر جرمانہ وصول کر کے خزانے میں جمع کرائے۔ اس طرح وسیع پیمانے پر ملازمت کے مواقع مہیا ہوں گے ، قومی خزانے کو فائدہ الگ ہو گا اور حکومت کی سوچ کے مطابق بجلی کے بحران میں بھی کمی ہو گی۔تاہم ایک ہچ اس معاملے میں یہ ہو سکتی ہے کہ عدالت کی طرف سے میرٹ پر بھرتیوں کا دباؤ ہے تو جرابیں ٹٹولنے والی نوکری کا میرٹ کیا ہو گا؟

تاہم سچی بات تو یہ ہے کہ ابھی تک میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ موزوں اور بجلی کی کھپت کا کیا تعلق ہے؟کیا کسی نے موزوں کے موزی ہونے پر وکالت کی ہے یا کمیشن دیا ہے؟ مانا کہ موزے بننے پر بجلی خرچ ہوتی ہے لیکن وہ تو کافی عرصے سے جنریٹر والی فیکٹریوں میں بن رہے ہیں باقی تو صبر کر چکے ہیں کب کے ۔ موزوں کو استری بھی نہیں کیا جاتا۔ دھوتے وقت بھی واشنگ مشین میں ایک ہی بار میں دس پندرہ جوڑے اکٹھے دھل جاتے ہیں۔ خدا جانے کس انجنیئر نے مشورہ دیا ہے کہ موزے ہی بجلی کے کُنڈے ڈالتے ہیں، موزے بجلی سے چلتے ہیں اور یہ اے سی، برقی قمقمعوں سے زیادہ بجلی خرچ کرتے ہیں، یا کہ ان کو چارج کرنا پڑتا ہے، یا کہ یہ یو پی ایس انورٹرز کی جگہ استعمال ہو رہے ہیں، یا جہاں موزے ہوتے ہیں وہیں لائن لاسز واپڈا کو برداشت کرنا پڑتا ہے، یا موزے پہننے سے بجلی کا بل کم آتا ہے، یا موزے پہننے والا بندہ بجلی کھانا شروع کر دیتا ہے یا موزے ہی دراصل لوڈ شیڈنگ کی جڑ ہیں کہ واپڈا تو بجلی بھیجتا ہے لیکن راستے میں موزے بجلی اچک لیتے ہیں۔یقین مانیں کسی دن کسی پاکستانی نے نیوٹن اور آئن اسٹائن کے قوانین کی ایسی تیسی کرتے ہوئے پانی سے چلنے والی کار بنا لینی ہے۔ لکھ رکھیں۔

پاکستانی پالیسی ساز در حقیقت اس شکاری جیسے ہیں جو موم بتی بگلے کی آنکھوں کے درمیان رکھ کر اس کے اندھا ہونے کا انتظار کر کے پکڑنا چاہتا ہے جبکہ اگر ان کے ہاتھ میں تھامی بندوق اور جال کی طرف اشارہ کریں تو جواب ملتا ہے اگر ایسے ہی پکڑنا ہے بگلا تو ہماری مہنگی تنخواہوں کا کیا فائدہ؟

بس اب انتظار کریں کب حکومت نئی حکمت عملی اپنائے جس میں بجلی پیدا کرنے کے لیے نہانے پر پابندی، ملازمتیں دینے کے لیے سر میں خارش کرنے پر پابندی،سی این جی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ٹھنڈی آہیں بھرنے پر پابندی، ملکی ترقی کے لیے اعداد و شمار پر پابندی، سڑکوں کا حال بہتر بنانے کے لیے نئی کچی سڑکیں بنانے پر پابندی، گورنمنٹ ملازمین کی کارکردگی بہتر کرنے کے لیے شکایت لگانے پر پابندی، مہنگائی پر قابو پانے کے لیے لفظ مہنگائی پر ہی پابندی لگائی جائے گی سب سے بہتر پالیسی تو بہرحال جرابوں پر پابندی سے لوڈ شیڈنگ پر قابو پا کر تو بنا ہی دی گئی ہے۔