پاکستانی قوم کے دو ہی شوق ہیں پیسہ ہو اور بے شمار ہو۔کہتے ہیں ایک پاکستانی کو شیشے کی ایک بوتل سڑک پر پڑی ملی۔ اس نے سوچا کچھ شغل ہو جائے۔ اس نے بوتل سڑک پر توڑ دی تاکہ آتی جاتی کاروں کے پہیے پنکچر ہوتے رہیں۔ اتفاق سے اس بوتل میں ایک جن قید تھا چونکہ وہ جن پاکستان بننے سے پہلے کا قید تھا لہذا وہ پاکستانیوں کے کرتوتوں سے نا واقف تھا تو وہ سمجھا شاید اس کو آزاد کرنے کی خاطر بوتل توڑی گئی ہے ۔ اس نے پوچھا آقا کوئی سی تین خواہشیں بتائیں۔ پاکستانی نے کہا ایک تو میرے گھر میں ٹیکسال لگ جائے جو اندھا دھند نوٹ چھاپتی رہے اور وہ ہو بھی سب کے سامنے کہ رعب پڑتا رہے دوسرا وہ نوٹ خود بخود میری جیبوں میں اور اکاؤنٹوں میں منتقل ہوتے رہیں اور تیسرا باقی سب کے نوٹ جعلی ہو جائیں۔جن جانے لگا تو پاکستانی بولا بھائی صاحب آپ ناراض ہو گئے چلیں یورپ کا یا کسی عربی ملک کا آزاد ویزہ ہی دلا دو وہ بولا سرکار مجھے پتہ نہیں تھا پاکستان بن گیا ہے میں اور بوتل ڈھونڈنے جا رہا ہوں۔
تو جس ملک کے لوگوں کی سوچ پیسے سے شروع ہو کر پیسے سے ختم ہوتی ہو وہاں کسی نیک کام کی ترغیب دینا انتہائی مشکل کام ہے۔ ویسے بھی ہمارے ہاں نیکی فقط نماز روزہ ہے اس کے بعد جو مرضی آئے کرو ۔ ہماری مسلمانیت بھی انفرادیت تک محدود ہے۔ ہم صرف ان حدیثوں اور آیات پر عمل کرتے ہیں جس میں انفرادی عبادت پر زور دیا گیا ہو مثلاً روزہ، نماز، مسواک، داڑھی، لباس وغیرہ جہاں بات معاشرے اور اجتماعیت کی آئی وہاں مسلمانیت بھی غائب۔حسن اخلاق، شجر کاری، برابر ماپ تول، علم کا حصول، حقوق العباد پر ہمارا اسلام چپ سادھ کر بیٹھ جاتا ہے۔علاقہ غیر میں چرس کی دکانوں پر وقفہ برائے نماز کی تختی کوئی اتنی پرانی بات نہیں۔ وہ فلم کا ڈائیلاگ تو آپ نے بھی سن رکھا ہو گا کہ "چوری میرا پیشہ ہے نماز میرا فرض ہے"۔
اب الحمدللہ میں خود بھی پاکستانی ہوں لہذا اپنے بھائیوں کی طرف داری میرا فرض بنتا ہے تو میں آج ان وجوہات پر روشنی ڈالوں گا جن کی بنا پر درختوں کو بالکل نہیں ہونا چاہیے بلکہ جو بےچارے چند ایک بچے ہیں ان کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہیے کہ برائی اور بری عادتیں تو جڑ سے اکھاڑی نہیں جاتیں ہم سے درخت ہی سہی۔
درختوں کے اتنے نقصانات ہیں کہ پاکستانی حق پر ان کو نہیں لگاتے۔ جتنے جن، بھوت، چڑیل، پچھل پیریاں، اگل پیریاں ہیں سب مخلوق درختوں پر ہی پائی جاتی ہے۔ گویا دہشت گردی مکانے کے واحد حل ڈبل سواری پر پابندی کی طرح جنوں بھوتوں کے بھگاؤ کا واحد طریقہ ہے کہ درخت ہی کاٹ دیے جائیں۔اب اگر آپ پوچھیں کہ یورپ میں درخت چپے چپے پر ہیں تو کیا وہاں جنوں بھوتوں کی حکمرانی ہے؟ تو بھائی ایک تو وہ جن بھوت پر اعتبار نہیں کرتے اس لیے وہاں جن نہیں پائے جاتے جیسے جب تک جراثیم دریافت نہ ہوئے تھے دنیا سکون میں تھی(جراثیم سے مراد جراثیم ہی ہیں امریکہ نہیں یعنی جراثیم کا کسی کو علم ہی نہ تھا تو لوگ ان سے ڈرتے یا احتیاط کیسے کرتے) دوسرا چمٹ جانے والی چڑیلیں کم از کم ہماری نظروں سے تو کئی بار یہاں یورپ میں گزری ہیں تیسرا وہاں پر دیسی بنگالی عامل بھی نہیں پائے جاتے جو نشاندہی کر سکیں کہ ان درختوں پر جنات کا بسیرا ہے اور چوتھا اور سب سے بڑھ کر ہم انگریز کافروں کی تقلید کیوں کریں؟؟
درختوں یا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ درختوں کو لگانے سے ان پر شہد کی مکھیاں آ کر گھر بنا لیتی ہیں اور لوگوں کو کاٹتی پھرتی ہیں اور ہم جیسے نازک مزاج لوگ جن کو شہد کی مکھی کا کاٹنا تو دور کی بات دیکھ کر ہی الرجی ہو جاتی ہو درخت لگا کر جان جوکھم میں کیوں ڈالیں۔ لہذا درخت لگا کر ان کو موقع ہی نہیں دینا چاہیے کہ وہ کاٹ سکیں۔ باقی شہد کا کیا ہے وہ تو ہم ویسے ہی بازار سے کمپنیوں کا لیتے ہیں اور اس شہد کے لیے شہد کی مکھیاں تھوڑی ضروری ہیں بلکہ اس کے لیے چینی کا شیرہ چاہیے ہوتا ہے جو صحت کے لیے بھی اچھا ہوتا ہے کہ ہم تو جانتے ہیں مکھیاں کتنی گندی ہوتی ہیں۔
درخت گند بھی بڑا مچاتے ہیں۔ صبح آپ کے نوکر نے جھاڑو دے کر گند سامنے والے گھر کے دروازے پر پھینکا کہ دوپہر تک آپ کا صحن پھر پتے پتے ہو گیا۔ جہاں تک سائے کی بات ہے تو وہ ہم بازار سے دو ہزار روپے میٹر والا سبز کپڑا لیکر کر لیں گے خوبصورتی کی خوبصورتی اور گند سے بھی بچاؤ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ درخت خوشبو پھیلاتے ہیں تو بھائی وہ پودے ہوتے ہیں جن پر عام طور پر پھول آتے ہیں اور اگر کسی درخت پر آتے بھی ہیں تو صفائی کا مسئلہ بدستور اپنی جگہ قائم رہتا ہے کہ پتے تو سنبھلتے نہیں ان کے پھول بھی سمیٹو۔۔لہذا اس سے آسان حل ہے کہ محض دو سو روپے میں کوئی سا ایئر فریشنر لے آئیں اور مسئلہ حل۔
کہتے ہیں درخت فضائی آلودگی صاف کرنے میں مدد گار ہوتے ہیں۔یہ آکسیجن فراہم کرتے ہیں اور کاربن ڈائی اکسائڈ چوستے ہیں۔یقین مانیں یہ سب لوگوں کی پھیلائی ہوئی باتیں ہیں جیسے گلوبل وارمنگ کا شوشہ چھوڑ رکھا ہے۔ اور ویسے بھی آلودگی روکنے کے لیے 10 روپے کا پودا لگا گر دو سال انتظار کرنے سے اچھا نہیں 5 روپے کا ماسک لے آئیں ناک پر چڑھائیں اور فوری رزلٹ پائیں۔ ویسے بھی ہم پاکستانی چاہتے ہیں جو ہے ابھی ہو۔ ٹھنڈا کر کے ہم نے کھانا سیکھا ہی نہیں۔
ملتان میں جہاں کے مشہور تحفوں میں سے ایک مٹی ہے اگر یورپ کے کسی ملک کا شہر ہوتا تو مجھے یقین تھا اتنے درخت لگائے جاتے کہ گرد، گرما، گدا و گورستان کے تحفوں میں سے گرد غائب ہو جاتی ۔ لیکن یہی تو گوروں کی نا اہلیاں ہیں کہ اگر پیرس سے ایفل ٹاور غائب ہو جائے تو باقی کیا بچا؟ پیسا ٹاور کے بغیر اٹلی کا کیا تصور، اہرام کے بغیر مصر کو کون جانتا ہے۔ ایسے ہی درخت لگ جاتے تو ملتان تو گیا تھا کام سے۔ ہاں قبضہ گروپوں نے اگر اکثر گورستان ہتھیا لیے ہیں تو وہ دوسری بات ہے۔ ویسے قبرستان بھی درختوں کی طرح خلق خدا کو خوفزدہ کرنے کا باعث ہیں لہذا ان کو بھی درختوں کی طرح اوقات میں رکھنا چاہیے۔
درخت مچھر کا بھی گھر ہے۔ مچھر سے ڈینگی پیدا ہوتا ہے لہذا ہم کہہ سکتے ہیں درخت ڈینگی پیدا کرتے ہیں۔ اور ڈینگی سے ہمارے ہاں اکثر بندے دو نمبر دوائیں کھا کر مر جاتے ہیں۔ لہذا درخت کم سے کم ہونے چاہیں تاکہ ڈینگی پر قابو پایا جاسکے۔ایسے ہی آج کل روز اخبار میں آتا ہے کہ اسلام آباد میں جنگلی شہتوتوں کی وجہ سے الرجی پھیل رہی ہے اور یہ الرجی پاکستان میں بچ جانے والی واحد بیماری رہ گئی ہے۔ بھائی کیوں خلق خدا کو تکلیف میں ڈال رہے ہو جس نے درختوں سے کمیشن کھانا ہے اور اسکو کھانے دو اور عوام کی بھی الرجی سے جان بچے گی لہذا اسلام آبادی عوام خاص طور پر اپنے حق میں آواز اٹھائیں اور شہر میں ایک درخت بھی نہ بچنے پائے۔
ہر سال اخبار میں آتا ہے کہ اس سال اتنے ہزار، اتنے لاکھ درخت لگانے کا ہدف مقرر ہے۔ خدا جانے ہدف مقرر کرنے سے درخت لگ جاتے ہیں یا نہیں کم از کم ہمارے علم میں نہیں۔ پہلے جتنی بھی شاہراہیں ہوتی تھیں ان کے دونوں اطراف درخت لگائے جاتے تھے۔ لیکن درختوں کا مسلسل نو آموز اور نیند میں ڈوبے ڈرائیوروں کو دیکھ کر سڑک کے بیچوں بیچ آ کر ان سے ٹکرا جانے کے واقعات کے بعد حکومت نے اب درختوں کو شاہراہوں پر لگانا بند کر دیا ہے۔
تمام ارباب اختیار سے اور جو ہم جیسے دیوانے لوگ پاکستان میں درختوں کو عام کرنے کے خواب دیکھتے ہیں کے لیے عرض ہے کہ پاکستان میں درخت صرف اس صورت میں لگائے جائیں گے جب درختوں پر پتوں کی بجائے کرنسی نوٹ لگنا شروع ہو جائیں۔البتہ ایک صورت اور ہے کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ عقلمندو یہ پندرہ بیس روپے کا درخت تین چار سال بعد پندرہ بیس ہزار کا بک جائے گا۔ لیکن تین چار سال کون صبر کرے یہاں تو جس سال آم کے باغ میں اچھے عام نہیں لگتے باغ مالکان درخت ہی نکال کر بیچ کھاتے ہیں کہ ہمیں روز کے انڈے سے کوئی سروکار نہیں ۔ہم ایک ہی بار مرغی ذبح کرنے والی قوم ہیں۔لہذا پیارے پاکستانیو کاٹی رکھو درخت کہ کیا ہوا کل کو ہمارے بچے صاف ہوا، پانی سے محروم رہیں گے ، کیا ہوا پہاڑوں پر لینڈ سلائیڈنگ عام ہو جائے گی، کیا ہوا جو دریا زمین کھدیڑتے رہیں گے، کیا ہوا جو موسم تباہ کن تبدیلی لے آئیں گے۔کیا ہوا جو گرمی ناقابل برداشت اور سیلاب بے قابو ہو جائیں گے۔ ہم تو عیاشی کر لیں کل کس نے دیکھا ہے۔رہی بات سرسبز پاکستان کی تو جھنڈا سبز کر لیا ہے یہی کافی نہیں؟