June 13, 2013

سینچری پوسٹ۔ بلاگ اور بلاگر کا تعارف

Century post- Blog or Blogger ka taruf


میرے بلاگ لکھنے کی براہ راست ذمہ داری میرے ماموں پر آتی ہے کہ وہ کمپیوٹر انجنیئر ہیں اور امریکہ میں ہوتے ہیں تو کہنے لگے "شاہ جی آپ بلاگ کیوں نہیں لکھتے"؟ "یہ بلاگ کس چڑیا کا نام ہے ماموں"؟ وہ بولے" آج کل دنیا کتب کی بجائے بلاگ لکھنے پر منتقل ہو رہی ہے"۔ "اچھا جی"!

جب میرے ہم عمر ڈاکٹر، انجنیئر اور فوج میں جانے کے خواب دیکھا کرتے تھے تو تب ہی میری خواہش تھی کہ میں بڑا ہو کر ادیب بنوں اور وقت کے ساتھ اس خواب میں شدت آتی گئی اور زندگی کا مقصد فقط یہ بن گیا کہ کسی پبلشر کو پیسے دے دلا کر ایک کتاب چھپوا لی جائے اور ہماری زندگی کا مقصد پورا ہو جائے کہ یہ بلاگ بیچ میں آن ٹپکا۔


مصنف بننے کا خلل دماغ میں تب واقع ہوا جب ہم نے ایسی عمر میں کتابیں پڑھ لیں کہ شہاب نامہ مکمل پڑھ کر والدہ سے پوچھا "مما! یہ شہاب نامہ پتلونیں بھی پہنتا تھا"؟ یوں ہماری زندگی کا پہلا مقصد مصنف بننا ہی تھا تاہم بعد میں ہم زمیندار بننا چاہتے تھے لیکن پارٹ ٹائم مصنف بننا پھر بھی ترجیحات میں شامل رہا۔فرق یہ پڑا کہ پہلے والد صاحب کی لائبریری سے سیاسی ، حالات حاضرہ اور لوگوں کی سوانح پڑھتے رہے اور پاکستان امریکہ کا پٹھو کب بنا قسم کی کتاب لکھنا چاہتے تھے لیکن نویں میں ملتان پبلک اسکول میں آنے کے بعد مفتی جی اور اشفاق صاحب کی تحریروں سے ملاقات کے بعد ایک محبت سو کہانیاں اور نفسانے لکھنے کی طرف دل مائل ہو گیا۔

بڑے عرصے ہم راقم الحروف کے فین رہے کہ یار کس کس بندے سے مل چکا ہے اور کون کون سی کتب لکھ چکا ہے کہ اگر کوئی مصنف گزرا ہے تو بس یہی۔ بعد میں بات کھلی کہ راقم الحروف ہر کتاب کا الگ ہوتا ہے بس اس دن کا ایسا دل چلا کہ اب ہم کم کم لوگوں سے ہی متاثر ہوتے ہیں۔

پہلی تخلیق دسویں جماعت میں ہوئی جب ایک استاد صاحب کے نہ آنے پر دوسرے استاد صاحب نے انکی کلاس لیکر ہم سب کو حکم دیا کہ اپنے والد کے نام خط لکھو جس میں تعلیمی معاملات تحریر کرو ۔اب جو خط ہم نے لکھا وہ سر کو تو مار کے ڈر سے نہ پڑھا سکے لیکن گھر والوں کو ضرور پڑھایا اور جس نے پڑھا وہ ہنس ہنس کر اوندھا ہو گیا کہ وہ ایک اردو میڈیم والے کا انگریزی اسکول میں کسمپرسی کے حالات کو ظاہر کرتا تھا۔

تاہم اس سلسلے کو جاری نہ رکھا بلکہ خیالات شاعری پر مبذول ہو گئے اور ہم نے وزن اور بحر کی قید سے آزاد شاعری شروع کردی شاعری کی کتاب چھپوانے کا خواب دیکھنے لگےاور تین سال بعد جب ہمیں بھنک پڑی کہ بھائی اردو شاعری میں وزن اور بحر ضروری ہے معانی اور خیال اہم نہیں تو ایک دن ہم نے اپنی دو ڈائریوں کو جو بے وزنی غزلوں کے وزن سے دبی ہوئی تھیں کو آگ کے سپرد کر کے شاعری ترک کر کے کتاب چھپوانے کا اردہ فی الحال ملتوی کر دیا۔

چار پانچ سال کے تیاگ کے بعد جب ماس کمیونیکیشن میں داخلہ لیا تو دماغی خلل کی علامات دوبارہ ابھرنے لگے اور اب کے ہم نے آزاد شاعری پر ہاتھ صاف کرنا شروع کر دیا۔یہاں تک کہ ایک روز ہمارے ایک استاد صاحب ایک لڑکے کو لے آئے اور تعارف کرایا کہ انہوں نے آڈیو ڈرامہ بنایاتھا۔میں نےجوابی آڈیو ڈرامہ بنا ڈالا (پڑھیے صوتی ڈرامہ کیسے نہیں بنانا چاہیے)۔ دو اسٹیج ڈراموں اور ایک ویڈیو ڈرامے کا اسکرپٹ لکھ ڈالا جو بن نہ سکے۔ایک روز ایک خود کو دانش ور سمجھنے والے میرے ایک سینئر صاحب فرمانے لگے کہ آٹھ صفحے لکھ چکے ہیں ابھی انکے افسانے کا پہلا سین ہی مکمل نہیں ہوا اور میرا غصہ مجھ سے افسانے لکھوانے لگا۔اب پتہ نہیں یہ میرا غصہ تھا یا میری خود پسندی جب میں نے ان کا افسانہ پڑھا تو مجھے تو خاصا بوگس لگا۔تاہم انکی ڈینگ نے مجھے نیا راستہ ضرور دکھا دیا۔

آخر پولینڈ آ کر ہمیں ماموں کی بات یاد آئی اور ہم لگے ڈھونڈنے کہ بلاگ آخر کس چڑیا کو کہتے ہیں کہ ہم بھی یہ چڑیا پکڑ کر چڑی مار بنیں۔

ہم نے گوگل پر بڑا ڈھونڈا کہ کسی اردو بلاگ کا پتہ مل جائے کہ یہ کیسے لکھا جاتا ہے لیکن تب ہمارے پاس یونی کوڈ کی سہولت نہ تھی کہ ہم اردو اور اردو بلاگ ڈھونڈ سکتے۔ پتہ نہیں کیسے میرے دماغ میں یہ بات گھس گئی کہ بلاگ مزا حیہ ہوتا ہے وگرنہ آسان کام تھا کہ لکھی ہوئی کہانیاں ہم پوسٹ کرتے جاتے۔پہلے ہم نے ورڈپریس پر بلاگ بنایا لیکن پھر سوچا کہ یار ہے بلاگ اور ڈومین ہے ورڈ پریس خیر ہے ؟ تو ہم نے دوبارہ اسکو بلاگر پر بنایا۔

اب یہ بھی یاد نہیں کہ تب میں نے اسکا نام اس طرف سے کیوں رکھا تھا اور یہ کہ یہ اِس طرف سے تھا یا اُس طرف سے تھا تاہم اب میں اس کو اُس طرف سے کہتا ہوں کہ "اُس طرف سے—دنیا کو دیکھیں جس طرف سے میں دنیا کو دیکھنے کا عادی ہوں"۔

ڈفر صیب نے پہلی بار بتایا کہ بھائی سیارہ پر رجسٹر کراؤ اور ہماری سیارہ والوں سے ہیلو ہائے ہوئی اور ہماری تحریر ہمارے علاوہ بھی کوئی پڑھنے لگا۔کہ شروع میں ہم اس گمان میں رہے کہ قاری خود اچھی تحریر کو تلاش کر لیتا ہے لیکن بعد میں پتہ لگا اچھی تحریر سے اچھی یاری دوستی زیادہ اہم ہے۔(تفصیل کے لیے پڑھیں بلاگ پر ٹریفک بڑھانے کے طریقے

چونکہ بلاگ کا جنم 4 جنوری کو ہوا لہذا وہ بھی ہماری طرح جدی ستارے کا حامل ہے اور جدی کی خوبیوں میں سے ایک ضدی پن، سادگی اور بے وقوفی بھی ہے تو ہمارے بلاگ میں بھی یہ خوبیاں کوٹ کوٹ کر پائی جاتی ہے (باقی برج والوں کی خوبیاں اور خامیاں جاننے کے لیے ہمارے بلاگ برج اور ان کا احوال کا انتظار کریں جو کب کا پوسٹ ہونے کی قطار میں لگا ہے) کہ شروع میں ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کہ بائی ڈیفالٹ تھیم جو بلاگ میں دی گئی ہیں کے علاوہ کوئی اور تھیم بھی اپ لوڈ کی جاسکتی ہے تو یہ کہاں سے پتہ لگتا کہ تھیم کو مسلمان یعنی اردو میں بھی کنورٹ کیا جا سکتا ہے۔اور اب تک اسی صورت حال میں ہیں کہ فقط پوسٹ کرنے کا طریقہ آتا ہے اور کوئی بھی مسئلہ ہو تو مہربان لوگوں سے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔ شروع دن سے آج تک ہمارا مقصد اور فوکس فقط بلاگ لکھنے اور ٹائپ کرنے پر رہا۔بلاگ کی شکل سے زیادہ بلاگ کی تحاریر پر فوکس رہا یعنی وہی جدی لوگوں والا حال کہ ظاہری جیسا بھی ہو دل سے صاف ہو۔

سویں پوسٹ تک پہنچنے میں مجھے ساڑھے تین سال لگے ہیں اور اسی دوران تقریباً بہتر ہزار بار بلاگ کا صفحہ دیکھا گیا گویا ایک تحریر 720 بار پڑھی گئی۔ لیکن اصل میں ایسا نہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے بلاگ کا 90 فیصد وزٹ ہم نے خود ہی کیا ہے۔ کبھی کبھی ہمیں لگتا ہے ایک دن جب ہم پوسٹ کرتے کرتے اور ریفریش کرتے کرتے تھک جائیں گے تو اپنے ایک دوست کی طرح جیسے اس نے محبت میں ناکامی کے بعد ہاٹ میل کا پاسورڈ ایسے تبدیل کیا کہ خود بھی پتہ نہ لگے کہ کیا حروف تھے ہم بھی بلاگنگ کی دنیا کو تیاگ جائیں گے۔حالانکہ ہمارے دوست نے پاسورڈ ایک سافٹ وئر کے ذریعے دوبارہ حاصل کرلیا تھا جبکہ ہمارے پاس ایسا کوئی سافٹ وئیر بھی نہیں ۔

لیکن کیا ہے کہ شروع میں ماہانہ ایک پوسٹ سوچتا تھا اور ایک پوسٹ کر دیتا تھا گویا ایک اسٹاک میں رکھتا تھا باقی جتنی لکھی جائیں وہ بلاگ پر پوسٹ کر دیتا تھا ایک رکھنے کی لاجک یہ تھی کہ کم از کم تیس دنوں کا وقت مل جاتا تھا مجھے اور بلاگ لکھنے کے لیے۔پھر دو پوسٹ کرتا تھا اور ایک اسٹاک میں رکھتا تھا لیکن اب تو دماغ کوئی ایسا شیطانی چرخہ بنا ہے کہ افسانوں کو نکال کر 35 پوسٹیں اسٹاک میں پڑی ہیں تو سوچتا ہوں کہ ان بیچاری 35 پوسٹوں کو کیوں یتیم چھوڑا جائے اور ایسی عظیم تحاریر پڑھنے سے عام آدمی کو محروم کیوں رکھا جائے؟؟کہ پہلے ہی اردو اور اردو کے قارئین پر بے تحاشا ظلم ہو چکے ہیں اور ہم تو اردو سے بے تحاشا محبت کرتے ہیں۔ دیکھیے کب تک تاب آتے ہیں

 یوں تو میرا شوق افسانہ اور کہانی رہا ہے لیکن اس بلاگ کے چکر میں پھنس کر میں نے تین سال میں کسی کہانی کا ایک لفظ بھی نہیں لکھا۔ پھر میں نے پہلا بلاگ ٹسٹ کے طور پر افسانہ پوسٹ کیا تھا(ذات یہاں پڑھیں) جو لوگوں کو میں ڈرتے ڈرتے پڑھایا تو انہوں نے خاصی تعریف کی اور مزید پوسٹ کرنے کی فرمائش کی۔جب سنجیدہ فرمائش آئی تو میں نے تین سال بعد دوبارہ افسانہ پوسٹ کرنا شروع کیا حالانکہ میں اس بلاگ کو سنجیدہ نہیں بنانا چاہتا تھا لیکن ایک تو نئے بلاگ کے قاری کہاں سے پکڑ لاتا دوسرا دو بلاگ چلانا میرے لیے مشکل ہے کہ ساکر نامہ اور اپنے تصویری بلاگ سے اسی لیے دوری اختیار کر لی اور اب ہر ماہ ایک افسانہ پوسٹ کرتا ہوں لیکن دوبارہ افسانوں کی طرف آنے سے تین سال سے بند سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا اور میں نے اپنی نظر میں خاصی اچھی کہانیاں لکھی ہیں۔

میرا بلاگ لکھنے کا طریقہ بڑا عجیب ہے۔ پہلے تو میں رات کو سوتے وقت سوچا کرتا تھا اور اس وقت خیال ایسے دوڑے آتے کہ کیا چور دروازہ کھلا دیکھ کرکسی گھرمیں گھستا ہو گا اور پھر سو کر دکھائیں۔پھر پولینڈ آنے کے بعد پتہ لگا سب سے بہترین وقت تو کلاس میں ہوتا ہے اور میں لگا کلاس میں بلاگ لکھنے لیکن اب دوران سفر بھی خاصا حوصلہ مل جاتا ہے اور ایک ہوائی سفر میں سات آٹھ بلاگ، کہانیاں لکھ لیتا ہوں۔ میں ٹکڑوں ٹکڑوں میں لکھتا ہوں۔ پہلے آئیڈیا لکھ لیا پھر جیسے جیسے خیالات آتے گئے ان کو لکھتا آیا۔ یوں ایک ہی وقت میں مختلف بلاگ اور کہانیوں پر توجہ رہتی ہے اور آخری مرحلے میں ان سب کو فائنل لکھنا ہوتا ہے۔ میرے لیے سب سے مشکل کام اپنا لکھا بلاگ یا کہانی دوبارہ پڑھنا ہوتا ہے کہ اپنا لکھا نہیں پڑھا جاتا دوبارہ۔ تاہم کاپی سے لکھ کر ٹائپ کرنے میں یہ آسانی رہتی ہے کہ خود بخود نظر ثانی ہو جاتی ہے لیکن تن آسانی کے باعث اب میں نے فائنل کام کاپی پر کرنے کی بجائے ڈائریکٹ ٹائپ کرنا شروع کر دیا ہے کہ میں اور میرا بلاگ دونوں ہی حد درجے تن آسان ہیں۔

 بلال صاحب نے منظر نامہ کے لیے انٹرویو کے سوالات پوچھے تو یہ پوسٹ لکھی ہوئی تھی جس کے باعث میں نے ان کو تمام جوابات فوری دے دیے تاہم لوگوں کو وہاں تشنگی محسوس ہوئی امید ہے کہ ان کا شوق پورا ہو جائے گا اور وہ مجھ میں بوریت محسوس کرنے لگیں گے۔(منظرنامہ والا انٹرویو یہاں پڑھیں

المختصر اور الجامع آپ لوگوں کی اور بلاگروں کی مہربانی ہے کہ مجھے بلاگر سمجھتے ہیں اور میرے بلاگ پڑھتے ہیں اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں ورنہ اکثر اوقات میرا دل کرتا ہے دفع کروں کس کام میں پھنسا ہوں ویسے تو جیسے میں نے کہا مجھے لگتا ہے میں خود ہی پیج ری فریش کر پیج کاؤنٹر کو بڑھاتا رہتا ہوں لیکن ہر صبح جب سو کر اٹھتا ہوں کو پیج کاؤنٹر میں چالیس پچاس وزٹ کا اضافہ مجھے وہم میں ڈالتا ہے کہ نہیں کوئی نہ کوئی ہے جو پڑھتا ہے بس انہی چالیس پچاس وزٹس کی وجہ سے لکھنے پر مجبور ہوں۔

اب ماشاء اللہ سے سرچ کرکے بلاگ پر آنے والے بھی بڑھتے جا رہے ہیں لیکن ان کی سرچ دیکھ کر لاحول ولا پڑھنے کا دل کرتا ہے کہ سب کو ایک ہی کام ہےاور گوگل بھی ہماری دلجوئی کو الٹے سیدھے سرچ الفاظ کو گھیر گھار کر ہمارے بلاگ پر لے آتا ہے۔

بھائیو بس یہ تو پاکستانیوں کی محبت ہے ورنہ اگر کسی اور ملک میں ہوتے تو سارا دن ہمارا لکھنے کے علاوہ کوئی اور کام نہ ہوتا اور ہم لکھ لکھ کر اتنا کما لیتے جتنا ہم پی ایچ ڈی کر کے بھی نہ کما سکیں۔ظالمو پہچانو ٹیلنٹ ضایع ہوا جاتا ہے بےچارہ کزن(کزن سے جان پہچان یہاں حاصل کریں) اسی لیے کہتا ہے

فکر دنیا میں ڈھونڈوں نوکری کوئی
بھیجے پیسوں کی ٹوکری کوئی 
یہ وہ ہنر ہے کہ کزن جس میں 
نہ پیسہ ملے نہ چھوکری کوئی