June 1, 2013

ہائے ری مہنگائی

hi ri mehngai


انگریزی میں مہنگائی کو انفلیشن inflation اور اردو میں انفلیشن کو افراط زر کہا جاتا ہے۔افراط زر دراصل اس مقصد کے تحت نام دیا گیا ہے کہ جدید اکنامکس یا معاشیات کے تحت مہنگائی ہونے کا واحد سبب یہ ہے کہ لوگوں کے پاس پیسہ زیادہ ہو گیا ہے جس کو وہ خرچ کریں گے اور زیادہ گاہک ہونے کی صورت میں بیچنے والا منہ مانگے دام وصول کرے گا چنانچہ واحد حل یہ ہے کہ وہ پیسہ کسی طریقے سے واپس لے لو۔ اب واپس لینے میں امیر کوتو نقصان نہیں ہوتا بےچارہ غریب مارا جاتا ہے کہ حکومت یا اسٹیٹ بنک گھر گھر جا کر تو نہیں کہے گی کہ بھائی نکالو پیسے جو گھر پڑے ہیں (ویسے کیا پتہ در پردہ ڈاکوؤں کو انہی کی پشت پناہی حاصل ہو اور ہم جو دن رات بد امنی کو گالیاں نکالتے ہیں وہ دراصل عوام کی فلاح میں مہنگائی ختم کرنے کا علاج ہو ) تاہم حکومت ٹیکس لگا کر اور بینک سود کا ریٹ بڑھا کر نئے کاروبار کی حوصلہ شکنی کرتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ نوکریاں ختم ہو جائیں گی اور غریب پہلی ہی فرصت میں اپنے پیسے خرچ کر کے صبر کر لے گا اور دکاندار گاہک کم ہونے پر قیمت کم کریں دیں گے اور غریب کے وہ پیسے امیر کے اکاؤنٹ میں جا کر مارکیٹ میں زیر گردش روپیہ کی کمی کا سبب بن جائیں گے گویا مہنگائی ختم کرنے کے لیے قیمتوں کو نیچے مت لاؤ بلکہ بندے ہی مکاؤ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہماری سیاسی جماعتوں کا منشور کہ غربت نہیں غریب مکاؤ کتنا سائنٹیفک ہے۔

 اکنامکس کے منہ بولے والد صاحب ایڈم سمتھ کے مطابق جب لوگوں کے پاس پیسہ نہیں ہو گا تو بیچنے والا خود ہی قیمتیں نیچے کرے گا کہ اس کا سامان بک سکے ایڈم اسمتھ صاحب لگتا ہے کبھی پاکستان نہیں آئے تھے۔یہاں تو بیچنے والا چوڑا ہے کہ بھائی نہیں لینا تو آگے نکل لو اور خریدنے والا منت کر رہا ہوتا ہے کہ بھائی صاحب ناراض تو نہ ہوں۔ تاہم ایڈم اسمتھ صاحب فرماتے ہیں کہ ایک غائبانہ ہاتھ مارکیٹ میں کام کرتا ہے جو سارا معاملہ چلتا رکھتا ہے یہاں لگتا ہے ایڈم اسمتھ صاحب ہمارے حکم رانوں کو وقت سے پہلے پہچان کر ان کا کردار لکھ گئے لیکن ہمارے خیال میں غائبانہ ہاتھ کا پاکستانی کردار عام آدمی کے غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کے برابر ہی ہے۔

یورپ آ کر پتا چلا کہ مرکزی بنک کا سب سے بڑا مقصد ہے مہنگائی پر قابو پانا۔ ورنہ پاکستان میں تو ہم سمجھتے رہے اس کا مقصد نوٹ چھاپنا ہے اور حکومت وقت کے گھر بار کا خرچہ پورا کرنا ہے۔پچھلے پانچ سالوں میں کم از کم ہمارے مرکزی بنک کا تو کام نوٹ چھاپ کر حکومت کی اشتہا پوری کرنا اور بنکوں کو کسی بھی قسم کا نقصان نہ ہونے دینا رہا ہے گویا کمرشل بنکوں کا منافع کمانا اسٹیٹ بنک آف پاکستان کا فرض ہے عوام جانے تے عوام کی برداشت جانے۔

ہمارے ایک دوست ہیں میاں صاحب ان کے چچا نے بھلا پھسلا کر ان سے اچھی خاصی زمین ہتھیا لی اور وہ شروع شروع میں صرف کاغذات پر دستخط کرنے کے شوق میں ان کے جال میں پھنستے گئے۔ ایسے ہی کبھی کبھی مجھے شک پڑتا ہے شاید یہ ہمارے اسٹیٹ بنک کے گورنروں کو بھی دستخط جس کو دیسی زبان میں گوگی مارنا کہتے ہیں کا شوق ہے جو وہ نوٹ چھاپ چھاپ کر ان پر پورا کرتے ہیں۔

ویسے تو نوٹ چھاپنا کوئی بری بات نہیں بشرط یہ کہ وہ آپ کی جیب میں جا رہے ہوں لیکن اسٹیٹ بنک کے نوٹ چھاپنے کا نقصان ایک تو بیرونی کرنسیوں کا مہنگا ہونا ہوتا ہے اور ہم ہر چیز کی تو باہر سے بھیک مانتے ہیں خواہ ہمارے ہاں اس سے بہتر چیز میسر ہو تو اس منگوائی ہوئی چیز کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں دوسرا اس سے ایڈم اسمتھ کے نظریے کے مطابق قیمتیں بڑھ جاتی ہیں کہ مارکیٹ میں کُل گھومنے پھرنے والا روپیہ زیادہ ہو جاتا ہے اور روپیہ آتا ہے تو خرچ ہوتا ہے اور خرچ ہوتا ہے تو قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔امیر کا اکاؤنٹ بڑھ جاتا ہے غریب کی جیب پچک جاتی ہے اور قیمتیں اپنی جگہ بڑھ جاتی ہیں۔

اور قیمتیں ایک بار بڑھ جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کو واپس نہیں لا سکتی۔ مہنگائی پولیس کی طرح ہے کہ اس سے نہ دوستی اچھی نہ دشمنی اچھی کہ اگر مہنگائی ہو تو بھی مشکل اور نہ ہو تو بھی مسئلہ کہ معیشت دان کہتے ہیں کہ ایک حد تک مہنگائی نہ ہو تو معیشت کی ترقی رک جاتی ہے ہمارے الفاظ میں اس کی تشریح یوں سمجھ لیں کہ کاروباری منافع نہیں کمائے گا تو کاروبار کیوں کرے گا گویا انکے منافع کے لیے ہر سال تھوڑی بہت قربانی دینی پڑتی ہے۔اور کاروباری کے منافع کے لیے عوام کو کاروکاری ہونا ہی پڑے گا۔

انگریزوں کے زمانے میں اور ان کے جانے کے بعد مجسٹریٹ ہوتے تھے جن کا کام قیمتوں پر نظر رکھنا ہوتا تھا کہ کسی نے ایک آدھ روپے کی چیز مہنگی بیچی نہیں اور اس کی شامت آئی نہیں لیکن ہم نے ماڈرن ہونے کے چکر میں مجسٹریٹی سسٹم کو قیمتیں کنٹرول سے ہٹا کر عوام کنٹرول کرنے پر لگا دیا اور ایک ایسی اکنامی کے طور پر ابھرے جو پورے طور یورپی یا امریکی اکنامی کی نقل تھی یعنی جس کا جہاں داؤ چلے وہ لگا لے۔

امریکہ یورپ میں کوالٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوتا وہاں بڑی کڑی چیکنگ ہوتی ہے جو چیزوں کا معیار جانچتی ہے اس کے علاوہ آفٹر سیل سروس بھی لا جواب ہوتی ہے کہ اکثر ممالک میں تیس سے نوے دنوں میں آپ کو چیز پسندنہیں آئی تو آپ واپس کر دیں جبکہ پاکستان میں تو ہزار روپے کا موبائل کا ڈبہ کھولتے وقت پوچھتے ہیں بھائی صاحب کھول دوں؟ اب آپ کی ذمہ داری ہے۔۔۔۔ بلکہ سیانے دکاندار تو کہتے ہیں یہ ہزار روپیہ ہمارا اور یہ ڈبہ آپ کا اب اس میں سے جو نکلے۔ اور دو تین واقعات کا تو میں چشم دید ہوں جب نوکیا کے ڈبے سے بیٹری یا چارجر برآمد نہیں ہوا اور اس کی تو وارنٹی ہوتی ہی نہیں۔اور ڈبہ کھل گیا تو قیمت تو ویسے ہی گر گئی۔

امریکہ اور یورپ میں گاہک کو اپنی حیثیت کا بخوبی احساس ہے وہاں کوئی نہیں کہتا کہ بھائی لینا نہیں ہے تو دکان کے آگے کیوں کھڑے ہو؟ کوئی نہیں کہتا کہ لینا ہے تو لو ورنہ اگلی دکان پر جاؤ یا جس نے یہ قیمت بتائی ہے اسی سے جا کر لے لو۔ ہم نے کاروباری حضرات کو آزادی تو دے دی لیکن کوئی پوچھنے پوچھانے والا نہیں۔ خواہ دودھ کے ڈبے سے لسی نکل آئے یا بغیر چینی والی کوکا کولا ہو یا جوس کے ڈبے سے کیڑے نکل آئیں کاروبار اور ملک کو ترقی کر رہا ہے۔۔

بھائی المختصر اور الجامع مغربی معاشی نظریات ضرور سیکھیں لیکن ان میں اچھائی برائی کرنا بھی ساتھ میں سیکھیں اگر امریکی سسٹم اچھا ہوتا تو وال اسٹریٹ پر ہنگامہ نہ ہو رہا ہوتا۔ سرمایا دارانہ نظام سرمایا دار کے لیے بنا ہے اور تب تک اس نے غریبوں کو لوٹنا کھسوٹنا ہے جب تک حکومت سامنے آ کر اس غائبانہ ہاتھ کا کردار ادا کرنا نہ شروع کر دے۔ یاد رہے اس کردار سے مراد ہمارا سابقہ حکومتوں کا "ہمارا حصہ"والا کردار نہیں۔