June 7, 2013

سفرنامہ گدائنسک

 Safarnama Gdansk -Poland


جب ملتان کی ہاڑ کی گرمی سے نکل کر پہلی بار یورپ کے ٹھنڈے میٹھے جون میں پہنچے تو آنے سے پہلے ہی عزم کر کے آئے تھے کہ یورپ کا چپہ چپہ گھومنا ہے۔ کوئی قصبہ کوئی شہر کوئی ملک ایسا نہیں بچے گا جہاں ہمارے مبارک قدم نہ پڑے ہوں تاہم پولینڈ اترتے ہی جب قیمتوں کے آٹے دال کا بھاؤ اور یورپی ویزے کے لیے ایک سال انتظار کرنے کی خبر ملی تو ہمارے ارمان بھی پولینڈ کے موسم کی طرح ٹھنڈے ہوگئے ۔ہم نے منصوبہ ب (پلان بی Plan B) سوچا کہ "تو نہ سہی تیری یاد ہی سہی" تو یورپ نہ سہی پولینڈ کا چپہ چپہ ہی گھوم لیا جائے لیکن پولش زبان سے نا واقفیت بری طرح آڑے آئی کہ ہمیں تو وارسا میں پوچھنا پڑتا تھا کہ "باجی آپ کو انگریزی آتی ہے؟ اگر ہاں تو یہ تو بتا دیں ٹکٹ کہاں سے لیتے ہیں اور مہربانی کر کے ایک ٹکٹ فلاں اسٹیشن کی موبائل میں ٹائپ کر دیں تاکہ ٹکٹ دینے والی ماسی کو کچھ سمجھ آ سکے"۔ تاہم شوق پوری طرح ٹھنڈا نہ ہوا اور دل وارسا سے باہر نکلنے کو مچلتا رہا۔


میری پہلی پسند ساحلی شہر گدائنسک Gdańsk تھا کہ دبئی میں سمندر کے گرم پانی نے پاؤں کے ساتھ دل بھی جلا دیا تھا اور میں بحیرہ بالٹک Baltic Sea جس کو ٹھنڈے پانی کا سمندر کہا جاتا ہے کا دیدار کرنا چاہتا تھا۔ویسے بھی یہ گرم پانی، ٹھنڈے پانی کا کھیل ہم پاکستانیوں سے بہتر کون جانتا ہو گا۔

ایک روز وارسا کے مرکزی اسٹیشن سے گزرتے ہوئے ایک بندے نے روک کر پوچھا کہ کیا آپ پاکستانی ہیں؟ ہمارے اثبات پر اس نے کہا میں اٹلی سے آیا ہوں اور میں نے گیدانیا Gedania جانا ہے۔ میں سمجھا بیچارہ پہلی بار اٹلی سے باہر نکلا ہے گدائنسک کو گیدانیا کہہ رہا ہے۔ہم نے کہا بھائی وہ کھڑکی ہے وہ قطار ہے لگ جاؤ اور باری آنے پر لے لو ٹکٹ ۔ خدا جانے وہ کیا چاہتا تھا ہم نے بات کھولنے کی کوشش نہ کی کہ مردم بیزاری میں میں اور میرا دوست دونوں خاصے اونچے مقام پر پہنچے ہوئے ہیں۔

 تاہم بعد میں تحقیق کی تو بات کھلی کہ دراصل یہ تین شہر اکٹھے اکٹھے واقع ہیں گدائنسک جو کہ بندرگاہ ہے، گیدانیا جہاں کا چڑیا گھر اور مچھلی گھر مشہور ہے اور سوپوت Sopot جس کی وجہ شہرت اس کا ریتلا ساحل ہے۔ اب دل تو سیر سپاٹے میں اٹکا تھا پڑھائی خاک کرنی تھی تو مسئلے کا حل آخر یوں نکالا گیا کہ میرے دوست نے ایک گائیڈ سے بات کی کہ وہ ہمارے ساتھ چلے اور اس کا خرچ ہم برداشت کریں گے ۔ایسی پیشکش تو مجھے کوئی امریکہ جانے کی کرے میرا امریکہ نہ جانے کے بارے فیصلہ متزلزل ہو جائے اور یہ تو پھر سوپوت تھا جس کا سوچ سوچ کر پولش آہیں بھرتے ہیں۔کیسے وہ انکار کرتی اورگائیڈ بی بی حامی بھرتے ہوئے ہمارے پیسوں سے گدائنسک میں ایک فلیٹ اور جانے کی ٹکٹ بک کر لیں۔

باتوں باتوں میں یونیورسٹی کی استانی سے ذکر ہوا تو ہم نے اس کو بتایا کہ ہم گدائنسک جا رہے ہیں اور ایسے ہم نے ایک گائیڈ پکڑی ہے۔ حسرت استانی کے چہرے پر صاف نظر آتی تھی تب تک اتنی دوستی تو نہ تھی کہ وہ کھل کر کہہ پاتی تاہم اس نے اتنا ضرور کہا کہ صرف گدائنسک جا کر کیا کرو گے اصل تو گیدانیا اور سوپوت ہیں۔ اور سوپوت اس نے اس لہجے میں کیا جیسے جولائی کا روزہ رکھ کر روزے سے دس منٹ پہلے بندہ ٹھنڈے شربت کی بات کر رہا ہو۔

جی تو ہمارا تھا کہ ٹرین کے ذریعے جاتے لیکن گائیڈ کے پاؤں میں ہمارا پاؤں اور ہم پانچ گھنٹے ویگن پر سفر کر کے گدائنسک پہنچ گئے۔گدائنسک پہنچ کر پتہ چلا کہ اصلی تے وڈا فضول شوارما کیا ہوتا ہے۔ شورامے کو ترک "ڈونر کباب" کی نسبت سے تمام یورپ میں ڈونر یا کباب کے نام سے پکارا جاتا ہے اور پولینڈ میں سب سے زیادہ بکنے والا کباب سؤر کے گوشت کا ہوتا ہے۔ بہرحال اس روز ملواریوں کے بنائے شوارمے جو دبئی میں ایک آدھ بار کھانے پڑے تھے گدائنسک کا شوارما کھا کر دل ملواریوں کی طرف سے صاف ہو گیا۔

اتفاق سے رمضان کا مہینہ تھا جس کے باعث ہم نے روزے کے ساتھ ان تین شہروں کی سیر کی اور نیند کی کمی کے باعث ایک جزیرہ نما جس کا نام ہیل hel یعنی دوزخ ہے اور ایک قلعہ جو تاتاریوں نے تعمیر کیا تھا کے دیدار سے محروم رہے۔نیند کی کمی کا بیان یوں ہے کہ تینوں فریق اکٹھے صبح بیدار ہونے سے قاصر رہے جس کے باعث ان دو جگہوں پر جانا ممکن نہ ہو سکا اور دوپہر کو ہر تین فریق ایک دوسرے پر الزام دھرتے رہے کہ ہم تو جاگے تھے لیکن آپ کو سوتا دیکھ کر آپ کی نیند میں خلل ڈالنے پر دل راضی نہ ہوا اور انتہائی مجبوری میں ہم دوبارہ سو گئے۔
جزیرہ نما ہیل


گدائنسک ہماری سوچ میں ایسا ہونا چاہیے تھا جیسے ہم اسلام آباد سے کراچی جائیں کہ وارسا دارالحکومت ہے اور سمندر سے دور واقع ہے اور گدائنسک ساحلی بندر گاہ۔ الٹا ہمیں ایسے لگا جیسے ہم اسلام آباد سے ملتان آ گئے ہوں۔ گدائنسک کسی طور بھی متاثر کن شہر نہیں تھا اور ہمیں استانی کی نیت پر شک کرنے پر افسوس ہوا کہ واقعی صرف گدائنسک میں کچھ نہیں دیکھنے کے قابل۔
بحیرہ بالٹک کے کنارے قلعہ مالبروک

یوں تو تمام پولینڈ میں ٹُن پارٹیاں عام ملتی ہیں پر گدائنسک کی یہ خوبی بھی سامنے آئی کہ یہاں شام کو کلب میں جاتے وقت ہی لوگ اتنی پی چکے تھے کہ ہوش و حواس گنوا چکے تھے اور ہم سوچتے رہے کہ اب یہ کلب جا کر کیا کریں گے؟ کہ عام طور پر لوگ کلب سے نکل کر اس حالت میں ہوتے ہیں۔

گدائنسک میں کوپن ہیگن کے لیگو گھروں کی طرز پر سمندری کھاڑی کے ساتھ ساتھ ویسے مکانات کی تعمیر کی بھونڈی کوشش کی گئی ہے لیکن آثار یہی بتاتے ہیں کہ آرکیٹیکچر صاحب بھی پارٹی سے ہو کر آئے یا جا رہے تھے یا پھر ان گھروں کی مرمت اور رنگ و روغن کے پیسے بھی بئیر اور وودکے کی نظر ہو گئے۔
لیگو ہاؤس کی نقل

شہر میں موجود پرانا شہر جو ہر یورپی شہر کی آن بان شان ہوتا ہے بھی پورا سورا تھا۔ پولینڈ کے ساتھ ہٹلر بھائی جان نے بھی صیح ہاتھ رکھا تھا کہ اکثر شہروں کا اس نے کہا تھا کہ مجھے دو اینٹیں جڑی نہ نظر آئیں اور سر شانوں پر نظر نہ آئیں تو اکثر عمارات دوسری جنگ عظیم کے بعد دوبارہ تعمیر کی گئیں۔ 
گدائنسک قدیم شہر

شہر میں سب سے اچھی چیز ہمارا فلیٹ تھا جس میں ہمارا قیام تھا جہاں پر بہترین انٹرنیٹ جو کہ پولینڈ میں ملنا خاصا مشکل ہے تھا اور اس کی جگہ وقوع بھی بہترین تھی، فلیٹ بالکل نیا بنا ہوا تھا اور وہاں تمام آسائش زندگی موجود تھے۔

ایک ٹرین تینوں ساحلی شہروں کو ملاتی ہے اور وہ وقفے وقفے سے چلتی ہے۔اسی میں بیٹھ کر اگلے روز گیدانیا گئے اور پولش لوگوں کے ہر دل عزیز مچھلی گھر کی زیارت کی اور باہر نکل کر ان تین یورو کو کوستے رہے جو ادا کر کے ہم اندر گئے تھے۔ میرے جیسے جانوروں سے محبت کرنے والے شخص کے باہر نکل کر تین یورو کو پیٹنے پر آپ مچھلی گھر کے معیار کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر کبھی پولش پولینڈ سے باہر نکلے اور انہوں نے دنیا میں اصل چیزیں دیکھ لیں تو انہوں نے بے ہوش ہی ہو جانا ہے۔ 
گیدانیا کا مچھلی گھر

تاہم گیدانیا کا چڑیا گھر لا جواب تھا۔ وہاں پہلی بار پنگوئن کا دیدار ہوا۔ بہت بڑے رقبے پر موجود یہ چڑیا گھر نہ صرف جانوروں بلکہ لگائے گئے درختوں کی وجہ سے ماحول کے حساب سے بھی لاجواب ہے۔اب بھی میں اس چڑیا گھر کو اپنے دیکھے گئے بہترین چڑیا گھروں میں سے ایک سمجھتا ہوں۔
چڑیا گھر

گیدانیا سے لوٹتے اسٹیشن پر نشے میں دھت لوگوں کی بہتات دیکھ کر خاصا خوف آیا کہ اللہ جانتا ہے بھونکتے کتے اور شرابی آدمی سے جان جاتی ہے۔اور سنا ہے کہ آپ کسی شے بارے وہم کریں تو وہ آپ کے ساتھ ہو کر رہتی ہے تو اس روز ایک شرابی مل گیا ہمیں اور آ کر پولش میں بولا اپنے جوتے اتارو میں شرط لگاتا ہوں تم نے اس میں پیسے چھپا رکھے ہیں۔ لو جی، عقل کے دشمن! اگر پیسے چھپا رکھے ہوتے تو ہم خرچ نہ کرتے؟ کیا اپنے ولیمے کے واسطے چھپا رکھے ہیں؟ اور بوٹ میں چھپا کر کون رکھتا ہے کہ جب نکال کر کسی کو دیں تو وہ خوشبو سے ہی اللہ کو پیارا ہو جائے۔ تاہم ہماری گائیڈ کے ڈانٹنے پر اور ہمارے دوست کے آنکھیں دکھانے پر وہ ہمارے سر سے ٹلا لیکن جاتے جاتے بھی وہ جوتے اتارنے پر مصر رہا اور ہمیں اس روز پہلی بار مسجدوں سے جوتا چرانے والے اچھے لگے کہ کم ازکم منہ کا تو لحاظ کرتے ہیں۔ بعد میں گائیڈ نے بتایا کہ بس یہ دقیانوسی سوچ رکھنے والے (اسٹیریو ٹائپ Stereo type) لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ مشرقی لوگوں کے پاس بڑا پیسہ ہے ۔ تاہم پیسے اور جوتے کا تعلق پھر بھی ہمیں سمجھ نہ آیا ۔سچ کہتے ہیں شراب بندے کی عقل خبط کر لیتی ہے اور ہمارے کیس میں تو اس نے پینے والے کی بھی کر لی اور بےچارے شکار بننے والے کی بھی۔
چڑیا گھر میں پینگوئن

شام کو ہم سوپوت پہنچے ۔ شام سے یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ گرمیوں یہاں دس بجے سورج ڈوبتا ہے تو اگر گرمیوں میں باہر گھومیں تو خاصا وقت ہوتا ہے۔ ایک خوبصورت سی گلی جس میں ہوٹل اور بار تھے ساحل کی طرف جاتے تھے۔ البتہ سب سے خوبصورت وہ ترچھا مکان ہے جو سوپوت کی پہچان ہے اور اکثر دنیا کی عجیب عمارات کے زمرے میں بھی گنا جاتا ہے۔ ساحل پر پہنچ کر گدائنسک سے سارے گلے شکوے دور ہو گئے۔ ریت پر ٹھنڈی ہوا اور ٹھنڈے پانی نے دل خوش کر دیا اور پہلی بار ہمیں سمندر اچھا لگنے لگا کہ کراچی کا صفائی کی وجہ سے اور دبئی کا گرم پانی کیوجہ سے ہمیں پسند نہ آیا تھا۔ اس ساحل پر گرمیوں میں تقریباً ہر روز کوئی نہ کوئی میراثی پروگرام ہوتا ہے اور اس روز بھی بڑی اسکرین پر ناچ گانا چالو ہوا ہی چاہتا تھا کہ ہم گدائنسک لوٹ آئے کہ ہماری گائیڈ کی طبیعت ناساز ہوگئی۔
سوپوت ساحل پر لکڑی کے تختے پر سمدر کے اندر واک

ساحل سوپوت

سوپوت میں قائم ترچھا گھر

گائیڈ کی طبعیت کی ناسازی کے باعث ہم ایک بار پھر ٹرین کے سفر سے محروم رہے کہ ٹرین دیر سے نکلتی تھی اور گائیڈ بی بی کی طبعیت تھی کہ ٹھہرتی نہ تھی۔ راستے میں گائیڈ کا جی متلانے لگا اور اس کو قے آنا شروع ہوئی تو میں نے سوچا کہیں گائیڈ کے پاؤں میں ہمارا پاؤں آنے سے اس کا پاؤں بھاری نہ ہو گیا ہو۔ پھر ہمارا شک ہمارے دوست پر گیا لیکن ایک تو روزے دار بھائی پر شک کرنا ویسے بھی گناہ ہے دوسرا کہیں وہ ہم پر شک نہ کر رہا ہو ہم نے اس کی طبعیت کی خرابی سردی کے ذمے ڈالی۔ویسے واقعی شام کو خاصی سردی ہو گئی تھی ساحل پر۔ قسم سے یار۔۔۔

سوپوت سے واپسی پر میں اپنے سابقہ دو سمندروں سے جان پہچان یاد کرنے لگا جب دبئی میں پانی سے نکل کر جلتی ریت پر اپنے جلتے پاؤں سہلاتا رہا اور اور کراچی میں جیبیں سیپیوں سے بھرنے کے بعد کئی روز تک قمیض کی جیبوں سے گندی بو آتی رہی۔

اگلی کلاس میں استانی نے ہمارے سفر کی تفصیل سنی اور مزید سر ہو کر  پوچھنے لگی کہ فلاں جگہ گئے تھے؟ فلاں جا دیکھی تھی؟ تو ہم نے اسے کہہ دیا کہ استانی بن ماسٹرنی نہ بن۔۔۔۔" لیکن دل میں"پر بدقسمتی سے وہ بھی ماسٹرنی بننے کی ٹھان چکی تھی "دل میں"۔یہ کہانی پھر سہی۔

٭٭ اس سفر کی تصاویر نہیں لگائی گئیں کہ وہ میرا یورپ میں پہلا سفر تھا اور تب میرے پاس کیمرہ نہیں تھا اور جن کے پاس تھا انہوں نے مناظر سے زیادہ میری فوٹو کھینچیں۔ اول تو میں کوئی ایسا دیکھنے کے قابل چیز نہیں ہوں اور اپنی فوٹو ہی لگانی ہے تو پنڈ کی ہو یا یورپ کی کیا فرق پڑتا ہے کہیں کی بھی لگا دیں۔

٭٭٭ لیں جی گوگل کی مہربانی سے تصاویر کا اضافہ کر دیا گیا ہے تاہم یاد رہے یہ نہ ہی میرے کیمرے سے ہیں نہ میری کھینچی ہوئی ہیں فقط گوگل سے شکریہ ادا کر کے یہاں پیسٹ کی گئی ہیں۔