July 7, 2013

جانا اٹلی اور ملاقات ماسی جیولیٹ سے

 Jana Italy aur mulaqaat masi Juliet se

عشق معشوقی میں جو درجہ سسی پنوں، ہیر رانجھا اور سوہنی ماہی وال نے پایا ہے وہی درجہ عربوں کے ہاں لیلی مجنوں اور انگریزوں کے ہاں رومیو جولیٹ کا ہے۔ ہم اپنی زبان اور اپنا ملک تک کو کامیاب کرا نہیں سکے اپنی ثقافت کیا خاک دنیا کے سامنے لاتے نتیجۃ ہماری سسیاں تھل میں خاک چھانتی رہ گئیں، سوہنیاں دریا برد ہو گئیں اور شیریںیاں نہر کھدوانے کی ٹھیکیداری کو پیاری ہوگئیں ادھر ولایتی ولی میاں شیخ پیر المعروف ولیم شیکسپئرWilliam Shakespeare نے رومیو جولیٹ لکھا اور اس کو تمام دنیا کے سامنے لازوال بنا دیا کہ ہماری طرح اور بھی کافی دنیا انگریزوں کی نقالی کرتی ہے تو انگریزی کے احساس کمتری کے ماروں کی مہربانی سے رومیو جولیٹ دنیا کے بڑے عاشقوں میں شمار ہوئے۔

اٹلی Italy کے شہر ویرونہ Verona میں وقوع پذیر ہونے والے رومیو جولیٹ کے اس عشق کے چکر کو ویرونہ والوں نے دیوتائی حیثیت دے رکھی ہے اور جولیٹ کا گھر ، جولیٹ کا مجسمہ،جولیٹ کی گلی، جولیٹ کے کارنامے سب کچھ سنبھال کر رکھا ہے البتہ حرام موت مرنے والے میاں رومیو کا ذکر کم کم ملتا ہے۔

اب ہوا یوں کہ ہم تو اٹلی گئے تھے راجہ صاحب اٹلی والے سے ملنے اور بہانہ تھا اردو بلاگنگ کانفرنس کا۔ اب راجہ صاحب اٹلی والے بارے تفصیل پھر کبھی سہی البتہ انہوں نے بطور میزبان ہمیں لگے ہاتھوں ویرونہ کی سیر بھی کرا دی جو کہ اگر ہم اپنے خود سے اٹلی گھومتے تو شاید اٹلی کا آخری شہر ہوتا جہاں ہم جاتے کہ ہم کہاں یہ عشق معشوقی کے چکر کہاں کہ ہمارا حال یہ ہے کہ پیار محبت پر مبنی کوئی فلم تک دیکھ لیں (جب کہ یاد رہے فلمیں ہم تھوک کے بھاؤ سے دیکھتے ہیں) تو دو دن ابکائیاں آتی رہتی ہیں۔ جہاں کہانیوں میں پیار محبت کا سین آیا وہاں ہم نے کہانی ہی لپیٹ دی ان فضول داستانوں میں کیا خاص دلچسپی لیتے لیکن جو لکھا ہو اس کو کون ٹال سکتا ہے اور جہاں فلموں میں اس صنف کا چکر شروع ہوا وہاں ہم نے فارورڈ Farward کا بٹن دبا دیا۔

گھر کا اندرونی منظر


ویرونہ پہنچے تو شام ڈھلنے والی تھی اور ہم وہاں پر موجود روم کے تاریخی اسٹیڈیم قسم کے چھوٹے کھیل کے میدان کی تصاویر کھینچ رہے تھے کہ راجہ صاحب اٹلی والے نے کہا کہ پہلے چل کر جولیٹ کا دیدار کر لیں ورنہ اس کا گھر دیکھنے کا وقت ختم ہو جائے گا اور ہم دیدار جولیٹ سے محروم رہ جائیں گے۔ماسی جولیٹ کے اتنا قریب آ کر دوری ہم کو بھی منظور نہ تھی لہذا ہم نے بھرپور تائید کی کہ اب ویرونہ آ ہی گئے ہیں تو ماسی جیولیٹ کا دیدار نہ ہوا تو تالن واپس کس منہ سے جائیں گے؟حالانکہ ہمیں شرم بھی ہمیں اچھی خاصی آتی تھی۔ لیکن سمندر کنارے جانا اور پانی میں غوطہ نہ لگانا کہاں کی عقلمندی ہے۔
رومی طرز کا کھیل کا میدان

اسی افراتفری میں ہم راستے میں آنے ایک بنگالی کو جو اسٹیچو آف لبرٹی یعنی مجسمہ آزادی کی نقل بنا سیاحوں کے ساتھ فوٹو اتروا رہا تھا اور ان سے پیسے لے رہا تھا کو نظر انداز کر کے آگے بڑھتے چلے گئے وگرنہ عام طور پر جنہوں نے ایسا سوانگ بھرا ہوتا ہے ان کی شہریت پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے لیکن بنگالی بابو ادھورا میک اپ کیے صاف بنگلہ دیش کا اشتہار نظر آ رہے تھے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پیسہ اپنی جگہ اور وطن سے محبت اپنی جگہ کہ پتہ لگتا رہے کہ بھائی اصلی امریکی نہیں ہیں. ایک سوچ یہ بھی آئی کہ کیا پتہ اصلی سرخ ہندی امریکیوں کا ٹچ دینے کی کوشش کی گئی ہو تاہم اس سے قبل کے ہم اس معاملے کی مزید تفشیش کرتے راجہ صاحب اٹلی والے ہمیں کھینچتے چلے گئے کہ بھائی یہاں تو چپے چپے بنگالی نظر آئے گا پر ہم احترام میں آ کر یہ نہ کہہ پائے کہ وہ اسٹیچو آف لبرٹی تو نہیں ہوگا۔
بنگالی مجسمہ آزادی

لگتا تھا کہ ماسی جولیٹ نے ہم جیسے نوجوان سوہنے مُنڈوں کو لانے میں راجہ صاحب اٹلی والے کے ساتھ سازباز کر رکھی تھی جبھی ان کو ماسی سے ملنے کی جلدی تھی۔ہو سکتا ہے کہ ماسی بھی رات کو اپنے عاشقوں سے چھٹکارہ پا کر چپکے چپکے ہمارا بلاگ پڑھتی ہو اور جانتی ہو کہ اردو بلاگنگ میں فقط خاکسار ہی اس کو اس کی اوقات کے قابل اوقات میں رکھ سکتا ہے۔ایک شک ہمیں یہ بھی گزرا کہیں راجہ صیب اٹلی والے کا خود کا لین دین نہ چل رہا ہو ماسی سے لیکن اطمنان گزرا کہ ایسا ہوتا تو وہ رومیو ایک ہی شہر میں رہتے ہیں اب تک کوئی چاند چڑھ چکا ہوتا کہ رومیو انکل ویسے بھی بھی بالکنی سے چڑھ چڑھ اس زمانے میں خاصے چاند چڑھا چکے تھے۔
محبت ناموں سے بھری دیواریں

محبت ناموں سے بھری دیواریں
جب جیولٹ ماسی کے قلعہ نما مکان کے اندر گھسے تو ایسے لگا کہ داتا دربار میں آ گئے ہیں اور لنگر بس کھلا چاہتا ہے۔ اتنا رش تھا کہ گویا یورپی جوڑوں کو ماسی کے دربار پر حاضری کے سوا کوئی کام نہیں۔ خدا معلوم بیچاری ماسی کو تب بھی ایسا قلعہ نما گھر میسر تھا یہ نہیں یا وہ بھی ہمارے غالب کی طرح سارے عمر پھکڑ رہی اور مرنے کے بعد صد سالہ جشن منائے جائے رہے ہیں۔

ماسی کے گھر میں داخل ہوتے ہی ایک گلی سی ہے جس کے سرے پر صحن ہے جہاں ماسی ہمارا انتظار کر رہی تھیں۔  اس پندرہ بیس فٹ کی گلی کے دونوں اطراف کی دیواریں فلاں لو فلاں، فلاں پلس فلاں، فلاں ضرب فلاں قسم کی تحریروں سے بھری پڑی ہیں کہ ہر جوڑا جو ویرونہ آتا ہے اس دیوار پر اپنا نام لکھ جاتا ہے اور یورپ میں ویسے ہی جوڑے سال دو سال سے زیادہ چلتے نہیں لہذا سال بعد وہ اے پلس آر A+R بی پلس آر B+R اور سی پلس آر C+R سے ہوتا زیڈ Z تک پہنچ جاتا ہے اور دیواروں کے ان حصوں پر جہاں اپنی محبتوں کو درج کرنے کی اجازت دی گئی ہے پر اب ایک نقطہ ڈالنے کی جگہ بھی نہیں بچی۔ کچھ من چلوں اور بے حوصلہ قسم کے عاشقوں نے محبت ناموں کو دیوار کے بقیہ حصوں تک پھیلانا چاہا تو حکومت نے سختی سے روکا کہ بندے بنو عاشق نہ بنو اور ہاتھ پکڑانے پر بازو نہ تھامو ورنہ رومیو کا انجام ذہن نشین رہے۔ تاہم ضرورت ایجاد کی ماں ہے تو عاشقان نے چپکنے والے اسٹکی Sticky کاغذ اور چیونگم چپکانے شروع کر دیے ہیں اور ان پر اپنی محبت کے نام کے حروف لکھ کر وہاں چھوڑ جاتے ہیں۔اسی لیے کہتے ہیں بندے کو دعا اور قانون سوچ کر بنانا چاہیے کہ دیوار تو واقعی محفوظ ہے اس پر تو ایک لکیر نہیں لگائی گئی۔

دیواریں چیونگم بازار اپنی
کچھ توہم پرست قسم کے عاشق محبوب کو قدموں میں ڈالنے کے لیے یا خود ان کے قدموں میں پڑا رہنے کے لیے وہاں تالے بھی لگا جاتے ہیں۔ اتنے تالے یا تو ہم نے وہاں دیکھے یا پھر ہماری میز کی دراز میں پائے جاتے ہیں۔ چونکہ ہم ویرونہ سے ہو آئے ہیں لہذا ہم اس موقع پر ضروری سمجھتے ہیں کہ وضاحت کردیں کہ یہ تالے ہرگز ہرگز ہم نے ماسی جولیٹ کے گھر سے نہیں چرائے بلکہ یہ ہم ہر بار پاکستان آتے جاتے وقت اپنے بیگ کو لگاتے ہیں جو ایسٹونیا جا کر ایسے اتار کر پھینکتے ہیں کہ واپسی پر لاکھ ڈھونڈنے نہیں ملتا اور مجبوری میں ہمیں نیا تالہ خریدنا پڑتا ہے اور یوں ہمارے تالوں کی تعداد دوہرے ہندسے تک پہنچ چکی ہے۔ بلکہ ہم تو وہاں پہنچ کر سوچ رہے تھے کہ وہ دس بارہ تالے لیتے آتے تو ہم بھی محبوب قدموں میں لوٹ پوٹ پاتے کہ آج کل پاکستان میں ویسے بھی لکھا ہوتا ہے عیسائی باوا ، سکھ باوا مطلب کہ بے فکر ہو کر آؤ کالا چٹا ہر جادو چلے گا تاہم ایک تو ہم دس بارہ تالے لے بھی جاتے تو دس بارہ لڑکیوں کو تو ہم جانتے بھی نہیں تالےکس کے نام لگاتے دوسرا اگر اتنے اچھے ہوتے کہ تالے لانا یاد رہتے تو تالوں کی تعداد بارہ تک پہنچتی ہی کیوں۔

تالے بازی
اسٹکی کاغذ
تالوں سے یاد آیا بہاولپور میں ایک زمانے میں رواج تھا کہ لوگ تالوں کی بجائے گوبر کنڈی کو لگا کر چلے جاتے جاتے اور چور ڈاکو مہمان اس استعارے سے اپنی اپنی سمجھ کے مطابق فیض یاب ہوتے۔ اب اس پر مزید تبصرہ میری اور ماسی جولیٹ دونوں کی صحت کے لیے مضر ہے لہذا خود ہی گھوڑے دوڑائیں۔

جولیٹ کے گھر سے باہر جاتے ہوئے
بلاگ جہاں سے شروع ہوا تھا وہیں پر ختم کرتے ہیں کہ ان کو دیکھا تصویر کھینچوائی محنت ہوئی وصول میاں تاہم ہم محنت پوری وصول نہ کر پائے کہ شرما شرمی میں مارے گئے۔  اس سے پہلے ہم اپنے ایک دوست کی تصاویر جو اٹلی گیا تھا جولیٹ کے مجسمے کے ساتھ مشکوک حالت میں دیکھ چکے تھے (یہ اخباری مشکوک حالت نہیں بلکہ ہمارے ایمان کے مطابق مشکوک حالت ہے) تاہم اس کو ہم دوست کی طبع جولانی سمجھ کر درگزر کر گئے بلکہ بھول گئے کہ اچھے اور شریف لوگوں کو ایسی فوٹو کھنچوانا زیب نہیں دیتا۔کیونکہ وہاں پر ہر مرد، و زن بچہ بڑا ہمارے دوست کی تصویر کے انداز میں ہی انتہائی متنازعہ فوٹو بنوا رہا تھا اور ہمیں ایسی فوٹو بنوانے کے لیے تین چار جنم اور لگیں گے۔ ہر شخص ماسی کے بے جان مجسمے کے ساتھ فحش انداز میں تصویر کھنچواتا اور ایسے شادمان ہوتا جیسے جنت پا لی ہو۔ شکر ہے مجسمہ بڑا بنایا گیا ہے اور ماسی کے کندھے تک ہی لوگوں کا قد جاتا ہے ورنہ جیسے ان کے کام ہیں انہوں نے تو چوم چوم کر ماسی کے منہ کو زنگ لگا دینا تھا۔

پہلے تو ہم نے فوٹو کھنچوانے سے انکار کیا لیکن جب راجہ صاحب اٹلی والے نے اصرار کیا تو ہمیں ماسی اور راجہ صاحب کی ساز باز پر یقین ہو گیا تاہم ہم نے ماسی کی بانہہ میں بانہہ ڈال کر ہی شہیدوں میں نام لکھوایا اور عزت بچا کر ویرونہ سے نکلے تو سیدھا تالن آ کر دم لیا۔ ہم جو شروع میں رومیو انکل کو بزدل اور بھگوڑا سمجھ رہے تھے ماسی جولیٹ کے مجسمے کواپنی آنکھوں سے دیکھ کر ہمیں پتہ لگا کہ رومیو انکل کی کیوں کوئی خیر خبر نہیں کہ وہ کہاں گئے کہ انہوں نے جو کارنامے انجام دیے سو دیے ماسی کی آج کل بنتی گت دیکھ کر انہوں نے پاپی دنیا سے پردہ پوشی ہی بہتر سمجھی۔
ماسی جولیٹ ہمارے انتظار میں

ماسی کے مجسمے کی تصویر تو حاضر ہے لیکن میری یا کسی اور ماسی کے شوقین کی ماسی کے مجسمے کے ہمراہ تصاویر بندہ یہاں چھاپنے سے عاجز ہے کہ اپنی تصویر ویسے ہی ہمیں اپلوڈ کرنے کا شوق نہیں اور دوسروں کی حرکات والی تصاویر اپلوڈ کرنے کی ہمارے اندر جرات نہیں ۔ جس کو شوق ہو وہ گوگل پر جولیٹ مجسمہ ویرونہ انگریزی میں لکھ کر سرچ کر کے دیکھ لے اور جلد دیکھ لے کہ سنتے ہیں گوگل پر پابندی لگنے جا رہی ہے۔