Jana Italy aur mulaqaat masi Juliet se
عشق معشوقی میں جو درجہ سسی پنوں، ہیر رانجھا اور سوہنی ماہی وال نے پایا ہے وہی درجہ عربوں کے ہاں لیلی مجنوں اور انگریزوں کے ہاں رومیو جولیٹ کا ہے۔ ہم اپنی زبان اور اپنا ملک تک کو کامیاب کرا نہیں سکے اپنی ثقافت کیا خاک دنیا کے سامنے لاتے نتیجۃ ہماری سسیاں تھل میں خاک چھانتی رہ گئیں، سوہنیاں دریا برد ہو گئیں اور شیریںیاں نہر کھدوانے کی ٹھیکیداری کو پیاری ہوگئیں ادھر ولایتی ولی میاں شیخ پیر المعروف ولیم شیکسپئرWilliam Shakespeare نے رومیو جولیٹ لکھا اور اس کو تمام دنیا کے سامنے لازوال بنا دیا کہ ہماری طرح اور بھی کافی دنیا انگریزوں کی نقالی کرتی ہے تو انگریزی کے احساس کمتری کے ماروں کی مہربانی سے رومیو جولیٹ دنیا کے بڑے عاشقوں میں شمار ہوئے۔
اٹلی Italy کے شہر ویرونہ Verona میں وقوع پذیر ہونے والے رومیو جولیٹ کے اس عشق کے چکر کو ویرونہ والوں نے دیوتائی حیثیت دے رکھی ہے اور جولیٹ کا گھر ، جولیٹ کا مجسمہ،جولیٹ کی گلی، جولیٹ کے کارنامے سب کچھ سنبھال کر رکھا ہے البتہ حرام موت مرنے والے میاں رومیو کا ذکر کم کم ملتا ہے۔
اب ہوا یوں کہ ہم تو اٹلی گئے تھے راجہ صاحب اٹلی والے سے ملنے اور بہانہ تھا اردو بلاگنگ کانفرنس کا۔ اب راجہ صاحب اٹلی والے بارے تفصیل پھر کبھی سہی البتہ انہوں نے بطور میزبان ہمیں لگے ہاتھوں ویرونہ کی سیر بھی کرا دی جو کہ اگر ہم اپنے خود سے اٹلی گھومتے تو شاید اٹلی کا آخری شہر ہوتا جہاں ہم جاتے کہ ہم کہاں یہ عشق معشوقی کے چکر کہاں کہ ہمارا حال یہ ہے کہ پیار محبت پر مبنی کوئی فلم تک دیکھ لیں (جب کہ یاد رہے فلمیں ہم تھوک کے بھاؤ سے دیکھتے ہیں) تو دو دن ابکائیاں آتی رہتی ہیں۔ جہاں کہانیوں میں پیار محبت کا سین آیا وہاں ہم نے کہانی ہی لپیٹ دی ان فضول داستانوں میں کیا خاص دلچسپی لیتے لیکن جو لکھا ہو اس کو کون ٹال سکتا ہے اور جہاں فلموں میں اس صنف کا چکر شروع ہوا وہاں ہم نے فارورڈ Farward کا بٹن دبا دیا۔
ویرونہ پہنچے تو شام ڈھلنے والی تھی اور ہم وہاں پر موجود روم کے تاریخی اسٹیڈیم قسم کے چھوٹے کھیل کے میدان کی تصاویر کھینچ رہے تھے کہ راجہ صاحب اٹلی والے نے کہا کہ پہلے چل کر جولیٹ کا دیدار کر لیں ورنہ اس کا گھر دیکھنے کا وقت ختم ہو جائے گا اور ہم دیدار جولیٹ سے محروم رہ جائیں گے۔ماسی جولیٹ کے اتنا قریب آ کر دوری ہم کو بھی منظور نہ تھی لہذا ہم نے بھرپور تائید کی کہ اب ویرونہ آ ہی گئے ہیں تو ماسی جیولیٹ کا دیدار نہ ہوا تو تالن واپس کس منہ سے جائیں گے؟حالانکہ ہمیں شرم بھی ہمیں اچھی خاصی آتی تھی۔ لیکن سمندر کنارے جانا اور پانی میں غوطہ نہ لگانا کہاں کی عقلمندی ہے۔
رومی طرز کا کھیل کا میدان |
اسی افراتفری میں ہم راستے میں آنے ایک بنگالی کو جو اسٹیچو آف لبرٹی یعنی مجسمہ آزادی کی نقل بنا سیاحوں کے ساتھ فوٹو اتروا رہا تھا اور ان سے پیسے لے رہا تھا کو نظر انداز کر کے آگے بڑھتے چلے گئے وگرنہ عام طور پر جنہوں نے ایسا سوانگ بھرا ہوتا ہے ان کی شہریت پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے لیکن بنگالی بابو ادھورا میک اپ کیے صاف بنگلہ دیش کا اشتہار نظر آ رہے تھے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پیسہ اپنی جگہ اور وطن سے محبت اپنی جگہ کہ پتہ لگتا رہے کہ بھائی اصلی امریکی نہیں ہیں. ایک سوچ یہ بھی آئی کہ کیا پتہ اصلی سرخ ہندی امریکیوں کا ٹچ دینے کی کوشش کی گئی ہو تاہم اس سے قبل کے ہم اس معاملے کی مزید تفشیش کرتے راجہ صاحب اٹلی والے ہمیں کھینچتے چلے گئے کہ بھائی یہاں تو چپے چپے بنگالی نظر آئے گا پر ہم احترام میں آ کر یہ نہ کہہ پائے کہ وہ اسٹیچو آف لبرٹی تو نہیں ہوگا۔
بنگالی مجسمہ آزادی |
لگتا تھا کہ ماسی جولیٹ نے ہم جیسے نوجوان سوہنے مُنڈوں کو لانے میں راجہ صاحب اٹلی والے کے ساتھ سازباز کر رکھی تھی جبھی ان کو ماسی سے ملنے کی جلدی تھی۔ہو سکتا ہے کہ ماسی بھی رات کو اپنے عاشقوں سے چھٹکارہ پا کر چپکے چپکے ہمارا بلاگ پڑھتی ہو اور جانتی ہو کہ اردو بلاگنگ میں فقط خاکسار ہی اس کو اس کی اوقات کے قابل اوقات میں رکھ سکتا ہے۔ایک شک ہمیں یہ بھی گزرا کہیں راجہ صیب اٹلی والے کا خود کا لین دین نہ چل رہا ہو ماسی سے لیکن اطمنان گزرا کہ ایسا ہوتا تو وہ رومیو ایک ہی شہر میں رہتے ہیں اب تک کوئی چاند چڑھ چکا ہوتا کہ رومیو انکل ویسے بھی بھی بالکنی سے چڑھ چڑھ اس زمانے میں خاصے چاند چڑھا چکے تھے۔
محبت ناموں سے بھری دیواریں |
محبت ناموں سے بھری دیواریں |
ماسی کے گھر میں داخل ہوتے ہی ایک گلی سی ہے جس کے سرے پر صحن ہے جہاں ماسی ہمارا انتظار کر رہی تھیں۔ اس پندرہ بیس فٹ کی گلی کے دونوں اطراف کی دیواریں فلاں لو فلاں، فلاں پلس فلاں، فلاں ضرب فلاں قسم کی تحریروں سے بھری پڑی ہیں کہ ہر جوڑا جو ویرونہ آتا ہے اس دیوار پر اپنا نام لکھ جاتا ہے اور یورپ میں ویسے ہی جوڑے سال دو سال سے زیادہ چلتے نہیں لہذا سال بعد وہ اے پلس آر A+R بی پلس آر B+R اور سی پلس آر C+R سے ہوتا زیڈ Z تک پہنچ جاتا ہے اور دیواروں کے ان حصوں پر جہاں اپنی محبتوں کو درج کرنے کی اجازت دی گئی ہے پر اب ایک نقطہ ڈالنے کی جگہ بھی نہیں بچی۔ کچھ من چلوں اور بے حوصلہ قسم کے عاشقوں نے محبت ناموں کو دیوار کے بقیہ حصوں تک پھیلانا چاہا تو حکومت نے سختی سے روکا کہ بندے بنو عاشق نہ بنو اور ہاتھ پکڑانے پر بازو نہ تھامو ورنہ رومیو کا انجام ذہن نشین رہے۔ تاہم ضرورت ایجاد کی ماں ہے تو عاشقان نے چپکنے والے اسٹکی Sticky کاغذ اور چیونگم چپکانے شروع کر دیے ہیں اور ان پر اپنی محبت کے نام کے حروف لکھ کر وہاں چھوڑ جاتے ہیں۔اسی لیے کہتے ہیں بندے کو دعا اور قانون سوچ کر بنانا چاہیے کہ دیوار تو واقعی محفوظ ہے اس پر تو ایک لکیر نہیں لگائی گئی۔
دیواریں چیونگم بازار اپنی |
تالے بازی |
اسٹکی کاغذ |
جولیٹ کے گھر سے باہر جاتے ہوئے |
پہلے تو ہم نے فوٹو کھنچوانے سے انکار کیا لیکن جب راجہ صاحب اٹلی والے نے اصرار کیا تو ہمیں ماسی اور راجہ صاحب کی ساز باز پر یقین ہو گیا تاہم ہم نے ماسی کی بانہہ میں بانہہ ڈال کر ہی شہیدوں میں نام لکھوایا اور عزت بچا کر ویرونہ سے نکلے تو سیدھا تالن آ کر دم لیا۔ ہم جو شروع میں رومیو انکل کو بزدل اور بھگوڑا سمجھ رہے تھے ماسی جولیٹ کے مجسمے کواپنی آنکھوں سے دیکھ کر ہمیں پتہ لگا کہ رومیو انکل کی کیوں کوئی خیر خبر نہیں کہ وہ کہاں گئے کہ انہوں نے جو کارنامے انجام دیے سو دیے ماسی کی آج کل بنتی گت دیکھ کر انہوں نے پاپی دنیا سے پردہ پوشی ہی بہتر سمجھی۔
ماسی جولیٹ ہمارے انتظار میں |
ماسی کے مجسمے کی تصویر تو حاضر ہے لیکن میری یا کسی اور ماسی کے شوقین کی ماسی کے مجسمے کے ہمراہ تصاویر بندہ یہاں چھاپنے سے عاجز ہے کہ اپنی تصویر ویسے ہی ہمیں اپلوڈ کرنے کا شوق نہیں اور دوسروں کی حرکات والی تصاویر اپلوڈ کرنے کی ہمارے اندر جرات نہیں ۔ جس کو شوق ہو وہ گوگل پر جولیٹ مجسمہ ویرونہ انگریزی میں لکھ کر سرچ کر کے دیکھ لے اور جلد دیکھ لے کہ سنتے ہیں گوگل پر پابندی لگنے جا رہی ہے۔