nahana tube well main or jana jaan se
بچپن سے ہی دو تین خواب مسلسل دیکھتا آیا ہوں جن میں سے ایک یہ ہے کہ میں کسی بلند جگہ پر چڑھ جاتا ہوں مثلاً کسی دیوار پر، کسی چوبارے پر ، کسی چھت پر کسی اونچی دیوار پر اور اس کے بعد خوف میں مبتلا ہوتا ہوں کہ "بیٹا یہاں آ تو گئے ہو اب اترو گے کیسے؟" یہ خواب اس تواتر سے آتا رہا ہے کہ پچھلے چند سالوں سے جب میں خواب میں نیچے اترنے کے متعلق پریشان ہو رہا ہوتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ یہ وہی خواب ہے لہذا اب مجھے جاگ جانا چاہیے تاکہ خوف ختم ہو سکے اور پھر آنکھ کھل جاتی ہے۔
خواب اس لیے یاد آیا کہ پچھلے سال گرمیوں میں چار ماہ کے لیے پاکستان گیا تو میرے دوست نعمان خان نے مجھے اپنے گاؤں آنے کی دعوت دی جو کہ بہاولنگر کے قریب واقع ہے۔ ہم نے بخوشی اس کی دعوت قبول کر لی اور اس کے مہمان ہوگئے۔
گاؤں چشتیاں –بہاولنگر روڈ سے اندر مڑ کر تیس چالیس کلو میٹر بعد دریائے ستلج کے کنارے واقع ہے۔میں تو پہلے بھی وہاں جا چکا ہوں لیکن کئی لوگ جنہوں نے نعمان کا مہمان بننا قبول کیا سنا ہے آدھے راستے میں ہی گڑ گڑ انے لگے کہ ان کے پاس جیتنے پیسے ہیں وہ لیکر ان کو واپس مین روڈ main road (یہاں مین روڈ سے مراد چشتیاں –بہاولنگر روڈ ہے) پر چھوڑ دیا دیا کہ اتنا اندر جانا ان کے نزدیک خود کشی ہی تھی لیکن ہمیں نعمان کی نیت اور دوستی پر پکا یقین ہے لہذا ہم بے خوف و خطر پہنچ گئے ہاں یہ الگ بات کہ ملتان سے بہاولنگر کا سفر ہمیں مین روڈ سے نعمان کے گاؤں تک کے سفر سے کم ہی لگا-
یوں تو مثبت پہلو یہ رہا کہ ہم دریائے ستلج دیکھ آئے جو نعمان کے گاؤں کے پاس ہی بغیر بند کے بہہ رہا تھا کہ دریا کا کنارہ، ٹرین کی پٹری، جنگل اور گاؤں کی شام سے ہمیں حد درجے محبت ہے۔البتہ دو روز قیام کے دوران کے بجلی محض دو گھنٹے کے لیے آئی اور جون کی گرمی نے مزہ دوبالا کر دیا۔
لیکن اصل کہانی یا عذاب یہ نہیں تھا۔
اصل کہا نی یوں ہے کہ ہم دوست ہیں اور بے تکلف ہیں تو جاتے ساتھ فرمائش کر دی کہ یہ یہ کھائیں گے یہاں یہاں جائیں گے مگر سب سے پہلے ہمیں ٹیوب ویل پر لے جا کر نہلوایا جائے۔اب شہروں میں رہنے والوں کو بتاتا چلوں ٹیوب ویل دیہی سوئمنگ پول ہوتا ہے۔جسکا اصل مقصد فصلوں کی آب پاشی ہوتا ہے تاہم جہاں پانی نکلتا ہے وہاں ایک پکا احاطہ سا بنا کر اس کو پول کی شکل دے دی جاتی ہے اور زمین سے نکلنے والا تازہ پانی اس احاطے میں سے ہوتا ہوا بڑی نالیوں میں جاگرتا ہے جہاں سے وہ اپنی مطلوبہ قطعہ زمین کو سیراب کراتا ہے۔اس پول کو مختلف نام دیے جاتے ہیں تاہم ملتان میں ہم اس کو "کھاڈا" کہتے ہیں اور کھاڈا جتنا بڑا ہو اتنا ہی نہانے کا مزہ آتاہے۔
بہرحال ہماری فرمائش سن کر لوگ مشورے دینے لگے کہ مہمانوں کو فلاں ٹیوب ویل پر لے چلیں ، ڈھمکاں ٹیوب ویل پر نہلائیں آخر فیصلہ ہوا کہ نعمان کے ماموں کی ٹیوب ویل پر چلیں جو انہوں نے اپنے ماہی فارم پر مچھلیوں کے تالابوں کو پانی اور اکسیجن دینے کےواسطے بنا رکھی ہے اور جس کا ٹھنڈا پانی ایک ضرب المثل ہے۔
نعمان نے ہمدردی جتاتے ہوئے ہمیں متنبہ کیا کہ یار خاصی گہری ہے اور اونچائی پر بنی ہے۔ہم نے نا سمجھی میں کہا یار ہم کوئی ڈرتے تھوڑے ہیں۔ حالانکہ ہمیں تیرنا بالکل نہیں آتا لیکن ہم نے سوچا ہم کنارے پر بیٹھ کر ٹانگیں ہی گیلی کرتے رہیں گے اور ایک آدھ غوطہ لگا کر انجوائے بھی کر لیں گے۔باقی رہا اونچائی پر تو کسی ٹیلے پر بنائی ہو گی تو ٹیلے پر ہو یا پہاڑ پر ہمیں کیا فرق پڑتا ہے۔لیکن بعد میں احساس ہوا نعمان نے سمجھانے میں غلطی کی ہے اور ہم نے سمجھنے میں غلطی کی ہے۔
ٹیوب ویل کیا تھی اللہ میاں کی طرف سے ایک پوری آزمائش تھی ۔اور ہماری کم عقلی دیکھیے ہم خود ملتان سے چل کر اس آزمائش میں پورا اترنے آئے تھے۔ٹیوب ویل دراصل تیس، پینتیس فٹ اونچی ٹینکی تھی جیسا گھروں میں سیمنٹ والی ٹینکی ہوتی ہے اور اسکا اصل مقصد پانی میں آکسیجن ملانا تھا جسکے لیے وہاں پر لوہے کی جالیوں پر مبنی ایک بجلی سے چلنے والا آلہ لگا ہوا تھا۔پانی ان جالیوں پر گرتا اور وہاں سے آکسیجن لیے مچھلیوں کے تالاب میں گرتا تھا۔
اب جیسا ہم پہلے ہی سوچ چکے تھے کہ اونچائی پر ہونا کوئی مسئلہ نہیں تھا بلکہ مسئلہ یہ تھا کہ اوپر چڑھنے کی کوئی باقاعدہ سیڑھیاں نہیں تھیں۔ٹنکی میں کسی ایمرجنسی میں جانے کے واسطے دیوار میں تھوڑے تھوڑے فاصلے سے اوپر نیچے سریے گاڑھے ہوئے تھے کہ انکی مدد سے بندر کی طرح لٹک کر چڑھیں اور اتریں۔
اب بزدلی دیکھانا بیکار تھا کہ گاؤں میں تو پھر ایک بار آپ کسی وجہ سے مشہور ہو جائیں تو وہی آپ کی پہچان بن جاتی ہے کہ "وہی نعمان خان کے دوست جن کو ٹیوب ویل پر نہاتے ڈر لگتا تھا؟" خواہ ٹیوب ویل ٹیوب ویل نہ ہو پل صراط ہو اور نہانا نہانا نہ ہو زندگی موت کا کھیل ہو۔ اور اگلے دو دن جب تک ہم نے وہاں رہنا تھا ہر گاؤں والے نے وہی راگ چھیڑے رکھنا تھا اور شہری تو ویسے ہی ان کی نظر میں ممی ڈیڈی ہوتے ہیں خواہ ہم ملتان میں گاؤں میں ہی رہتے ہوں پر آئے تو ملتان سے تھے۔
مرتا کیا نہ کرتا گالیاں بکتا اور آہیں بھرتا تین چار لوگوں کے بعد میں بھی آنکھیں بند کر کے سولی پر چڑھنے کو تیار ہو گیا۔البتہ اب تک یہ مجھے سمجھ نہ آ سکی ہے کہ ہم کانپ رہے تھے یا سریے ہل رہے تھے۔اللہ جانتا ہے شاید ہی کوئی ایسا دن گزرا ہو جس دن میں نہایا نہ ہوں ملتان اور دبئی کی تپتی گرمیوں میں آگ سے گرم پانی میں نہا چکا ہوں جب نہانے کے بعد دل کرتا تھا تمام جسم پر برنال لگائی جائے، پولینڈ اور ایسٹونیا کے برف زاروں میں ایسے ٹھنڈے یخ پانی سے نہا چکا ہوں کہ جب پانی جسم پر پڑتا تھا تو سانس رک رک سا جاتا تھا لیکن کبھی نہانے سے نہیں ہچکچایا لیکن اس روز پہلی بار مجھے اپنے نہانے کے شوق پر تین حرف اور اپنے آپ پر تین حرف بمعہ بہت بھیجنے کا دل چاہا۔
جب میں دسویں ، گیارہویں سیڑھی پر پہنچا تو مجھے اپنا خواب یاد آ گیااور میں نے سوچا کہ لو شاہ جی مدت سے خواب آرہا تھا بڑے لوگوں سے تعبیر پوچھتے پھرتے تھے اب بھگت لو کہ آج تو یہ کہہ کر بھی فرار ممکن نہیں کہ یہ خواب ہے اور ابھی میری آنکھ کھل جائے گی۔لوگوں نے کس کس اعلیٰ مقصد کے لیے جانیں دیں اور ہماری خبر لگے گی کہ یورپ پلٹ نوجوان ٹیوب ویل میں نہاتے جاں بحق اور اس پر کسی ہم جیسے حس مزاح رکھنے والے بلاگر نے بلاگ تک نہیں لکھنا۔
لیکن یہ مصائب کا اختتام نہ تھا۔جب ٹینکی میں پہنچے تو پتہ لگا کہ ایک تو اس کی گہرائی سات فٹ ہےجبکہ ہمارا قد پنجوں پر کھڑے ہو کر بھی چھ نہیں بنتا دوسرا وہاں ہر سو گندگی پھیلی تھی۔ ساری دیواریں سبز تھیں اور ٹینکی میں پانی کم اور کائی اور اس جیسی دوسری گندی چیزیں زیادہ تھیں۔ اب عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ ہم ٹیوب ویل چلا کر دیوار پر بیٹھ جاتے ہیں اور جب گند بہہ جاتا ہے تو ہم نہانا شروع کر دیتے ہیں اور اگر گند نہ بھی بہہ سکے تو ہم بالٹی کی مدد سے اسکو باہر پھینک دیتے ہیں لیکن کون کافر تیس فٹ اونچی دیوار پر بیٹھ پانی کی صفائی کا انتظار کرے اور اوپر سےصفائی کی غرض سے نیچے پانی پھینکنا بھی ناممکن کہ نیچے تو سارے مچھلیوں کے تالاب تھے۔
آنکھیں بند کیں اور جتنی گالیاں آتی تھیں خود کو دیں اور پانی میں چھلانگ لگا دی۔پانی میں گرتے ساتھ ہی فوراً احساس ہوا کہ آنکھیں بند نہیں کرنی چاہیں تھیں بلکہ منہ بند کرنا چاہیے تھا کیونکہ تمام گند پانی کے ساتھ منہ میں گھس گیا تھا اور باقی تمام وقت کھانستے کھانستے گزرا۔مگر اب تو بیل کو مارنے کی دعوت دے چکے تھے اب کیا ہو سکتا تھا اور ویسے بھی نیچے اترنا کونسا آسان کام تھا۔
اس اثنا میں ایک صاحب نے درفظنی چھوڑی کہ آکسیجن بجلی سے پیدا ہو رہی ہے تو فرض کریں اگر پانی میں کرنٹ آ گیا تو کیا کریں گے ۔رہی سہی جان بھی نکل گئی کہ کرنٹ سے بچ کر باہر چھلانگ لگا بھی دیں تو تیس فٹ کی بلندی سے کون بچ سکتا ہے۔گویا اندر تڑپ تڑپ کر مرنا اور باہر ٹوٹ پھوٹ کر مرنا۔تمام کیے گئے گناہ آنکھوں کے سامنے گھوم گئے اور جتنی دعائیں بخشش والی یاد تھیں کانپتی زبان پر جاری ہو گئیں۔
اب ٹینکی سات فٹ گہری ہونے کی وجہ سے دیواروں پر ہم بیٹھ نہ سکتے تھے کہ ہم اونچائی سے تھوڑا بہت خوف ہمیں وراثت سے ملا ہے، پانی اور گند مسلسل ہمارے معدے کے اندر پہنچ رہا تھا اور مثانہ مزید بوجھ سہنے سے جواب دے چکا تھا، تپتی دھوپ میں ٹھنڈے یخ پانی میں چار پانچ گھنٹے گند پھانکنے کے بعد جلد بوڑھی ہو گئی اور ٹانگوں میں کھڑے رہنے کے بعد جان نہ رہی تو فیصلہ کیا کہ واپس اترا جائے۔اب واپس کیسے اترے یوں تو یہ الگ بلاگ کی متقاضی ہے لیکن اس روز ہمیں احساس ہوا کہ لوگوں کا پیشاب کیوں خطا ہوتا ہوگا۔ ہر قدم پر وہی منحوس خواب ناچنے لگتااور ہر اترتے قدم پر پُھر پُھر سنائی دیتی جس کو ہم موت کے پروں کی آواز سمجھتے رہے البتہ بعد میں وہ ہمارے کچھے اور ہوا کی ملی بھگت نکلی۔بس المختصر اور الجامع ایک بار نہایا ہے اور سو بار توبہ کی ہے۔
٭٭ نوٹ: تصاویر میں نظر آنے والے افراد میں میں شامل نہیں۔