Baber shair
شیر جنگل کا بادشاہ ہے ۔اس کی چار ٹانگیں اور ایک دم ہوتی ہے۔ دم کو خاص ذہن نشین کیجیے کہ اکثر دو ٹانگوں پر چلنے والے گٹھنوں کے بل جھک کر اپنے دو بازوؤں کو ٹانگیں بنالیتے ہیں اور اسی بنا پر چار ٹانگوں کا دعوی کر کے شیر کہلاتے ہیں تاہم دم سے وہ باآسانی پہچانے جا سکتے ہیں کہ وہ شیر ہیں یا نہیں۔شیر کی دم کا سوائے شناختی علامت کے ہونے کے کوئی اور مقصد ہماری نظر سے نہیں گزرا کہ جیسے گدھے کی پہچان اس کے سینگ کا نہ ہونا ہوتے ہیں ایسے ہی شیر کی پہچان اس کی دم کا ہونا ہوتے ہے۔
شیر کی سات اقسام تھیں جن میں سے اب فقط دو ایشیائی شیر اور افریقی شیر دنیا میں پائی جاتی ہیں جبکہ باقی اقسام صفحہ ہستی سے غائب ہو چکی ہیں اور ان کی فقط تصاویر پائی جاتی ہیں۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ ان سات میں سے خواہ وہ پہاڑی شیر ہو یا غاری شیر کوئی بھی ایسی قسم نہیں پائی گئی جو انسانوں سی گفتگو کر سکتی ہو یا دو ٹانگوں پر چل سکتی ہو یا دم نہ رکھتی ہو یا دم نہ رکھنے کے باوجود دم پر پاؤں پڑتے ہی کاٹنے کے دوڑتا ہو۔
جھوٹ سچ ماہر حیوانات کا لیکن ان کے مفروضے بتاتے ہیں کہ شیر کی دم کا ایک نرالا مقصد ایک دوسرے کو اشارہ کرنا یا سگنل بھیجنا بھی ہے گویا جب ہم چھوٹے تھے تو کسی کا لٹکتا ازاربند دیکھ کر کہنا کہ آپ کا فون آ رہا ہے کا بنیادی ماخذ یہی تھا۔ اس سے ڈارون صاحب کا نظریہ کہ انسان پہلے بندر تھا کی بھی تصدیق کی جا سکتی ہے کہ انسان جانور تھا تبھی جانوروں کے ساتھ رہ رہ کر سیکھا کہ دم کا مقصد انٹینے کا ہوتا ہے اور لٹکتا نالہ دیکھ کر بھی یہی سمجھتا رہا کہ سگنل نشر کیے جارہے ہیں اور دم کو ازاربند سے تشبیہ دیے بغیر نہ رہ پایا۔
مذکر شیر خاصے فیشن ایبل واقع ہوئے ہیں اور زلف دراز رکھنے کے شوقین ہیں جبکہ شیرنیاں باقاعدگی سے بال مونڈتی ہیں جس سے امکان ہے کہ وہاں بھی بیوٹی پارلر کا کاروبار خوب زوروں پر ہو گا۔ایمان کی بات ہے کہ ہم آج تک ببر شیر فقط اس شیر کو سمجھتے رہے جس کے بال ہوں اور مونچھ مونڈ قسمی شیر فقط شیر ہیں۔ اب پتہ لگا کہ بال مذکر کے اور بے بال مونث شیر ہوتے ہیں تاہم شکر یہ ہے ہم نے کسی کو یہ بات نہ بتائی وگرنہ آزادی نسواں والے ہم پر خواتین سے دوہرے معیار کے سلوک پر کیس کر سکتے تھے کہ مرد تو ببر شیر اور خواتین فقط شیر جبکہ میرے خیال میں تو اکثر خواتین شیر کیا سوا شیر ہوتی ہیں۔
شیروں کی ایک نایاب قسم سفید شیر بھی ہیں جو اگرچہ سفید ہاتھی سے موٹے نہ ہوں لیکن سفید ہاتھی سے مہنگے ضرور ہیں۔تاہم ان کو پالنے میں ایک خدشہ یہ ہے کہ انتخابی مہم میں مر جانے پر عدالت میں کیس ہو جاتا ہے اور شیر کے جتنا خرچہ مقدمہ ختم کرانے میں لگ جاتا ہے گویا مرا شیر بھی سوا لاکھ کا ثابت ہو سکتا ہے۔
شیر کو جنگل کا بادشاہ کہا جاتا ہے اور شاید اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں حکم رانوں والی تمام خاصیت پائی جاتی ہیں کہ جس رعایا کو دل کیا شکار کر دیا۔ دوسرا شیر بھی رات کو شکار کرتا ہے تیسرا شیر ہے تو جنگل کا بادشاہ لیکن رہتا گھاس کے میدانوں میں ہے گویا حکمران تو غریب پاکستانیوں کا ہے لیکن رہتا فقط اسلام آباد کے مہنگے ایوانوں میں ہے۔
بلی شیر کی خالہ ہے۔کہتے ہیں شیر کو تمام کرتب بلی نے سکھائے ہیں کہتے ہیں روز بلی سے پوچھا کرتا تھاکہ خالہ جان آپ نے جو سکھانا تھا سکھا دیا؟جس روز بلی نے جواب دیا "ہاں بیٹا" بیٹے شیر نے بلی کو پکڑنے کو اس کے پیچھے دوڑ لگائی تو بلی جست لگا کر درخت پر چڑھ گئی ۔ خدا معلوم کوئی وراثت کا مسئلہ تھا یا شیر تاج محل کے معمار کے ہاتھ کٹانے والے واقعے کی طرح کسی اور کو اپنے جیسا ماہر نہیں دیکھنا چاہتا تھا یا پریکٹس کے دوران وہ چوہے کھا کھا کر تنگ آ گیا تھا (کہ بلی نے شکار کرنا چوہے پر ہی سکھانا تھا) بہرحال اس کا ارادہ بلی کا قلعہ قمع کرنا تھا۔ جب اس نے دیکھا بلی اس کی پہنچ سے دور ہو گئی ہے تو وہ کھسیانا ہو کر بولا خالہ درخت پر آپ نے مجھے چڑھنا ہی نہیں سکھایا جس پر بلی نے جو غالباً نصیرالدین شاہ کی فین تھی اور اس کی فلمیں بڑے شوق سے دیکھا کرتی تھی نے انہی کی فلم کا ڈائیلاگ دوہرایا کہ "میں ایک پتلی گلی ہمیشہ چھپا کر رکھتا ہوں" ۔ شیر بیچارہ رشتہ داروں کی دروغ گوئی، دنیا کی بے ثباتی اور پیشہ ورانہ بے ایمانی سے ایسا بد دل ہوا کہ بلی کے جملے کی گرائمر کی اصلاح بھی نہ کرا سکا کہ بلی "رکھتی" ہے "رکھتا" نہیں۔ اس دن سے بےچارہ کھسیانا شیر کھمبوں کی تلاش میں گھوم رہا ہے کہ اسے نوچ سکے۔ اسی لیے بیرون ممالک بجلی زیر زمین تاروں سے منتقل کی جاتی ہے کہ کہیں شیر کو کھمبے نظر نہ آ جائیں اور وہ ان کو نوچ نہ ڈالے۔ بس قدرت کا نظام ہے کہ کسی کو کسی شے کی کمی رہتی ہے کسی کو کسی شے کی۔ ہمارے پاس فالتو کھمبے ہیں تو شیر نہیں ان کے پاس فالتو بجلی اور شیر ہیں تو کھمبے نہیں۔ اسی موقع پر ایک اور محاورہ بھی وجود میں آیا کہ "شیرا پانی پانی" ۔ پانی پانی شرم سے بھی، بلی کو پکڑنے کی ناکام تگ و دو سے بھی۔
لیکن بلی نے اپنے دوسرے بھانجے چیتے کو درخت پر چڑھنا سکھا دیا ۔ راوی دریائے راوی کی طرح البتہ اس معاملے میں خاموش ہیں کہ اس کے بعد خالہ کا کیا ہوا؟سب سے قوی مفروضہ یہ ہے کہ اس کے بعد خالہ کی شادی ہو گئی کیونکہ عام طور پر خالاؤں کی محبت بھانجوں سے تب تک چلتی ہے جب تک خالہ کے اپنے بچے نہ پیدا ہوں کہ سرائیکی میں مثال ہے "صدقے ماسی، گھولے ماسی۔۔بھڑینجا روٹی گھر ونج کھاسی" (خالہ صدقے جائے قربان جائے لیکن بھانجا روٹی اپنے گھر سے کھائے)۔وہ الگ بات کہ آج خالہ گھر گھر بیچاری چھچھڑوں کی تلاش میں بھٹکتی پھر رہی ہے اور اس کے بھانجے عیاشیاں کرتے پھرتے ہیں۔ سچ ہے دنیا میں ٹیلنٹ کی کوئی قدر نہیں۔