پچھلے دنوں کئی ایک تحاریر دیکھنے کو ملیں کہ ان صاحب کو یونیورسٹی مدعو کیا گیا اور اور اساتذہ کے سلیکشن بورڈ میں بیٹھے اور انہوں نے مستقبل کے معماروں کے پیش نظر بہترین استاد چننے پر اپنا سارا علم تیاگ دیا تاہم انکو ان اساتذہ کے معیار پر سخت افسوس ہوا کہ وہ ظاہری و باطنی پندرہ بیس علوم (جو صاحب تحریر کو سارے کے سارے آتے تھے اور وہ ان تمام میں ماہر تھے)میں کورے تھے۔
January 9, 2024
July 20, 2023
میرے پرانے پڑھنے والے جانتے ہوں گے بھلے وقتوں سے ہم یہ برا کام (فلم بینی) کرتے آئے ہیں اور جب بھی وقت ملتا ہے کچھ نہ کچھ دیکھ ڈالتے ہیں۔ انہی دنوں کو فراغت رہ گئی اور کچھ نیٹ فلیکس کا پاسورڈ مل گیا تو یہ تازہ مال آپکے ساتھ شئیر کیا جارہا ہے۔ رائے پسند نہ آئے یا فلم پسند نہ آئے ہر دو صورتوں میں گناہ بذمہ ہدایت کار۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
April 30, 2023
سنہ 2016 تک میں باقاعدگی سے بلاگنگ کرتا رہا۔ اور بلاگنگ بھی ایسی کہ نان فکشن کو تو ہم دل سے بلاگر ہی نہیں مانتے تھے- ایسی دھواں دار بلاگنگ کی کہ ہر ہفتے ایک یا دو بلاگ پوسٹ کردیتے اور دس پندرہ تحاریر قطار میں پڑی انتظار کرتی رہتیں۔ بیسٹ بلاگر کا ایوارڈ ملا- افسانوں کی کتاب شایع ہوئی- اور پتہ نہیں کیا کیا اپنی طرف سے کارنامے سرانجام دیے بھلے پڑھنے والے سو دو سو ہی لوگ تھے لیکن ہم زمانے کی پرواہ کرنے والے ہوتے تو آج سدھر نہ چکے ہوتے۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
February 21, 2023
ہم بہت سے پرندوں کو روزآنہ دیکھتے ہیں اور وہ لوگ جن کو نیچر میں دلچسپی ہوتی ہے ان کے نام اور شناخت کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں- ویسے تو پرندوں کی شناخت ایک مکمل مضمون ہے جس پر انگریزی میں سینکڑوں کتب لکھی جا چکی ہین لیکن عام آسانی کے لیے، ایسے لوگوں کے لیے جو اس میں تھوڑی بہت یا نئی نئی دلچسپی رکھتے ہیں، اور اردو میں پڑھنا پسند کرتے ہیں کے لیے کچھ باتیں لکھیں جنکو آپ درج ذیل لنکس سے ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
April 12, 2021
چالیس پچاس سال قبل کسی نے ایک راہ دکھائی اور ملتان و گردنواح کے تمام زمیندار دھڑادھڑ آم کے باغ لگانے لگ گئے۔آم ان نسبتاً کم زرخیز زمینوں کو ایسے راس آئے کہ کسی کا ایک بیگھ بھی تھا تو وہاں بھی آم لگ گئے۔
ہمارے ملک میں زمیندار ایک بڑی بیچاری قسم کی مخلوق ہے ۔کاشتکار یا جاگیردار تو پھر فائدہ میں رہ جاتے ہیں لیکن زمیندار نہ ہی کاشتکار بن سکتا ہے کہ معاشرے میں اپنی عزت اور خاندانیت کا بھرم خاک میں ملتا ہے اور اتنے زرائع اور دہشت نہیں کہ جاگیرداری والا طرہ قائم رہ سکے۔ بس اسی نام نہاد بھرم کی خاطر وہ الیکشن لڑتا ہے، عدالت جاتا ہے، سرکاری اہلکاروں سے تحفے تحائف دے دلا کر بنا کر رکھتا ہے،دس بندوں کو سالانہ گندم دیتا ہے تاکہ وہ اسکے ہاں نوکری کرتے رہیں۔زمین یا تو ٹھیکہ پر دے دیتا ہے یا خود کاشت بھی کرتا ہے تو ڈرائیور، منیجر، منشی راہق (مزدور) کے لاہ لشکر کے ہمراہ کرتا ہے جس میں ہر ایک اپنی اپنی جگہ داؤ لگانے کو تیار ہوتا ہے اور زمیندار جانے انجانے میں یہ سب برداشت کرتا رہتا ہے۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
February 8, 2021
جب کا ہوش سنبھالا (میں اپنا ہوش سنبھالنا عمر کے حساب سے نہیں بلکہ سوچ کے اعتبار سے گنتا ہوں) نہ کبھی کسی مشہور
ہستی سے ملنے کا شوق ہوا نہ کسی ہم پیشہ (مصنف، فوٹو گرافر، برڈر) سے ملاقات کی آرزو رہی- باقی پرستار بننا تو مدت ہوئی ہم نے چھوڑ دیا
اس تحریر کو شیئر کریں;
April 23, 2020
سیواس
ترکی گھومنے کا میں کئی بار من ہی من میں ارادہ کیا کہ ارادہ کرنے کے لیے آپ کو فقط ذہنی آزادی چاہیے- اس ارادے میں استنبول، انطالیہ، ازمیر، قونیہ، انقرہ، غازی عینتاب، سامسون اور کاپا دوکیا شامل تھے- نہ کبھی سیواس کا سنا نہ کبھی جانے کا ارادہ کیا- حالانکہ ڈاکٹر مجاہد نے ایک دو بار بتایا کہ ان کا تعلق سیواس سے ہے لیکن وہ اگلے جملے تک ہی یاد رہا- یہ کبھی نہ سوچا تھا کہ استنبول کے بعد دوسرا شہر سیواس دیکھنے کو ملے گا-لیکن زندگی بے بھلا کب ہماری مرضی سے کوئی قدم اٹھایا ہے جو اب اٹھاتی-
اس تحریر کو شیئر کریں;
April 4, 2020
انطالیہ
ہمارے انطالیہ ہوائی اڈے پر اترنے سے پہلے وہاں اندھیرا اتر چکا تھا- اس لیے اندھیرے میں انطالیہ و گرد نواح کا کچھ بھی اندازہ نہ ہوا کہ کس قسم کا علاقہ ہے- سامان لیکر باہر نکلے تو ایک صاحب ورلڈ ایتھنو سپورٹ فورم کا گتہ پکڑے کھڑے تھے۔ ان کے پاس گئے – انہوں نے ساتھ کھڑے ایک اور شخص کی طرف ہمیں جانے کو کہا جو ڈائس ڈالے کاغذ لیے کھڑے تھے- اپنی فہرست میں انہوں نے ہمارا نام چیک کیا اور ساتھ کھڑے تیسرے شخص کو اشارہ کیا جو ہمارا سامان لیے ہمیں باہر کا اشارہ کرتے ہوئے آگے چل پڑا- کھیلوں کی وزارت کی طرف سے دعوت نامہ ملنے کے باوجود میں ایسے استقبال کی بہرحال امید نہیں کر رہا تھا-
اس تحریر کو شیئر کریں;
March 27, 2020
استنبول
جب میں استنبول ہوائی اڈے پر پہنچا تو مجھے پتہ چلا کہ میرے میزبان جنہوں نے ایک اور شہر سیواس سے آنا تھا پرواز منسوخی کی بنا پر نہیں پہنچ سکے۔ نہ ہی میرے پاس انٹر نیٹ تھا نا موبائیل رومنگ۔ نیا استنبول ہوائی اڈہ تمام تر خوبصورتی اور کشادگی کے باوجود (مقابلتاً سابقہ استبول ہوائی اڈہ) مفت انٹرنیٹ جیسی بنیادی سہولت سے محروم تھا- (ویسے یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں بہت سے یورپی ہوائی اڈے میرے ہوتے اس سہولت سے محروم ہی تھے)۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
October 24, 2019
علامہ اقبال فرماتے ہیں
اگرچه زادهٔ هندم فروغِ چشمِ من است
ز خاکِ پاکِ بخارا و کابل و تبریز
یعنی کہ اگرچہ میں ہند میں پیدا ہوا ہوں، لیکن میری آنکھوں کی چمک بخارا، کابل اور تبریز کی پاک خاک کے سرمے سے ہے- تو چونکہ میرا سلسلہ نصب بھی بخارا، تبریز سے جا ملتا ہے اس لیےسفر ایران میں ایسا ہی محسوس ہوا جیسے گرمیوں کی چھٹیوں پر کسی رشتہ دار کے گھر جایا کرتے تھے- اپنے ہی بچھڑے بھائیوں دوستوں سے ملکر کیا محسوس ہوا اب بھی پڑھییے-
اس تحریر کو شیئر کریں;
October 5, 2019
اگلا روز یعنی تیسرا روز سمر اسکول کا آخری روز تھا۔ ناشتا میں نے حسب معمول سو کر گزارا اور جب نیچے ہال میں پہنچا تو پتہ چلا کہ آخری روز کا پروگرام یہاں نہیں بلکہ تبریز کے ساتھ ایک انڈیسٹریل پارک یا فری زون / free zone/ Industrial park میں ہو گا کہ انہوں نے اس پروگرام کو سپانسر بھی کیا تھا- بسوں ویگنوں میں بیٹھ گئے (بسوں میں طلبہ اور ویگنوں میں مقررین)- وہ صنعتی پارک تبریز سے ڈیڑھ دو گھنٹے کی مسافت پر تھا- وہاں پہنچتے پہنچتے راستے میں کھانے کا وقت ہو گیا تو راستے میں کھانے کا انتظام بھی کیا ہوا تھا- کھانا کھایا اور پھر چل پڑے-
اس تحریر کو شیئر کریں;
September 18, 2019
اگلے روز اٹھے ، وقت دیکھا تو ناشتہ کھایا جا چکا تھا – تیار ہوا اور لیکچر دینے کانفرنس ہال میں پہنچ گیا جو اسی ہوٹل کی نچلی منزل پر تھا۔ جب وہاں پہنچا تو میری مترجم صاحبہ غائب تھیں میں نے شکر ادا کیا کہ اس معاملے میں مدعی ہی چست رہا ہے۔ مترجم صاحبہ کو یاد کرنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ میں لیکچر دینے کو بے قرار ہوا تھا بلکہ میرا لیپ ٹاپ ان کے پاس تھا اور مجھے اسکی فکر کھائے جارہی تھی- ان فروعی مسائل سے نکل کر پروگرام شروع ہوا- اب چونکہ میرا پہلا لیکچر تھا تو اس سے پہلے تلاوت، قومی ترانہ، تعارف وغیرہ ہوئے اور پھر مائیک میرے حوالے کر دیا گیا- میں نے شروع کیا کہ "سب سے پہلے تو آپ لوگوں کا شکریہ کہ آپ نے دعوت دی، خرچ اٹھایا اور سننے کو چلے (خرچ والی بات ظاہر ہے دل میں کہی)، دوسرے نمبر پر پیارے بچو اگر تو آپکو لگا اچھا اور آگئی سمجھ تو میری علمیت کی داد دیجیے گا اگر سمجھ نہ آئی تو پھر مترجم بی بی کو مورد الزام ٹھرائیے گا کہ اب آپ تک بات ہی صیح نہیں پہنچی تو میرا کیا قصور؟"
اس تحریر کو شیئر کریں;
August 6, 2019
پیش سفر، روز اول، سیر تہران
قسمت میں ایسے ہی لکھا تھا کہ میں نے بابا کے نہ چاہنے کے باوجود اپنے ماہانہ خرچ سے پیسے بچا کر پی ایچ ڈی کے ڈیفنس سے تین ماہ قبل لیتھوانیا Lithuania ایک تعلیمی کانفر س میں جانا تھا، کانفرنس کا خاص اسپورٹس سے متعلق ہونے کے باوجود اسکو فصول پانا تھا. وہاں ایک ترک ڈاکٹر (ڈاکٹر مجاہد فشنے) سے ملنا تھا اس کے بعد اگلے دو سال ایک دو مواقع پر اس ترک پروفیسر کے طلبا کی ریسرچ میں مدد کر نا تھا (حالانکہ میں اور دوسروں کی مدد..............) اور اس ترک ڈاکٹر کی وساطت سے ایک ایرانی ڈاکٹر سے ایک ریسرچ پراجیکٹ سے منسلک ہونا تھا اور اختتام کار تبریز میں ( ایک بار پھر بابا کے نہ چاہنے کے باوجود) دانشگاہ تبریز یعنی تبریز یونیورسٹی کے سمر اسکول Summer school میں شرکت کرنا تھی. اب قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے-
اس تحریر کو شیئر کریں;
April 19, 2019
سوچ رہا ہوں کہ ایک راہمنا کتابچہ لکھوں جو ایسے غیر ملکی پاکستانیوں کی مدد کرے جو پاکستان مستقل سکونت کا سوچ رہے ہیں تو اسی میں ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ عاجزی (یعنی ہمبلنس) کو وہاں ہی چھوڑ کر آئیں کہ جب تک یہاں آپ ڈھونڈورا نہیں پیٹیں گے کہ میں ایسا میں ویسہ میں دھیلہ میں پیسا تب تک کسی نے آپ کو گھاس نہیں ڈالنی تو اسی نقطے کے تحت میں بتاتا چلوں کہ میں نے ماسٹرز میں اکنامس یا معاشیات پولینڈ سے پڑھی تھی جہاں پڑھانے والے اکثر سوشلسٹ یا بائیں بازو کے نظریات کے حامل تھے جبکہ ڈاکٹریٹ میں معاشیات اسٹونیا میں پڑھی تھی جہاں اساتذہ کٹر فری اکانومسٹ یا سرمایہ درانہ نظام کے حامی تھی اس لحاظ سے مجھے دونوں نقطہ نظر کو پڑھنے اور جاننے کا موقع ملا-
-
اس تحریر کو شیئر کریں;
January 20, 2019
احمد رضا قصوری اپنی کتاب "ادھر ہم ادھر تم" جو اسی کی دہائی میں شائع ہوئی تھی میں لکھتے ہیں کہ پنجاب پولیس ایسی ہے کہ اگر اس کو کہا جائے کہ اپنے والد کو گرفتار کرو تو یہ ہتھکڑی لیے والد کے پاس پہنچ جائیں گے کہ "ابا جی گرفتاری دے دیو تہاڈے پتر دی ترقی ہو جائے گی"۔ اگر اس زمانے میں جو پاکستان کا نسبتاً اچھا دور تھا یہ حال تھا تو سوچیں بعد میں کیا کچھ نہ ہوا ہوگا- اس تنزلی کو پڑھنا ہو تو سابق آئی جی پنجاب سردار محمد چوہدری کی الٹی میٹ کرائم Ultimate crime (جہان حیرت : اردو ترجمہ) پڑھ لیں کہ وہ کیسے فخر سے نواز شریف حکومت بچانے اور برقرار رکھنے میں مدگار رہنے کی کہانیاں بیان کر رہے ہیں-
اس تحریر کو شیئر کریں;