December 1, 2014

ادلی کی بدلی - چھ- چھکا

Adli ki badli- cheh chaka


قسط نمبر 6
اس روز پہلی بار مجھے یہ بدن کی ادلی بدلی کا فائدہ محسوس ہوا کہ کم از کم یہ داغ لے کر میں نہیں جینا چاہتا تھا کہ اس نے اتنا بڑا ہو کر پیشاب بیچ میں کردیا تھا۔ آپ ہی بتائیں جب جب امی ڈانٹتی چھوٹے بھائی معنی خیز اشارے کرتے، جب جب میری توجہ کھانے پر ہوتی میرے بھائی زیر لب ہنس رہے ہوتے کہ دیکھیں آج بند کہاں ٹوٹے۔ جب کبھی میرے کپڑوں پر پانی بھی گر جاتا تو بھی ہر ایک نے پوچھنا تھا بھائی پھر؟ حالانکہ پھر میں کچھ بھی نہیں لیکن کرنے والا اور دیکھنے والا بخوبی جانتا ہے۔ جب جب میرے بھائی مجھ سے اردو ب میں مدد کے سلسلے میں کیے کرائے پر پانی پھیرنا کا اصل مطلب سمجھنے آتے تب تب میں نے انہیں سرد مہری سے سمجھانا تھا اور آئندہ جب بھی وہ کچھ پڑھنے آتے ان کو انکار کرنا پڑتا کہ منحوس اردو ب کے علاوہ فزکس کیمسٹری کی بھی بے عزتی کے لیے مدد لی جا سکتی ہے۔

اگلے روز جاگا تو کپڑے اور حلق دونوں سوکھے تھے۔ مجھے کمر میں اینٹھن سی محسوس ہوئی ۔ میں سیدھا ہوا تو کرسی کا توازن بگڑ گیا اور میں گرتے گرتے بچا۔ مجھے ہوش آیا اور میں نے آنکھیں کھولیں تو سامنے کوئی پچاس ساٹھ بچے تھے جو دبی دبی ہنسی ہنس رہے تھے۔ مجھے ایک دم طیش آیا کیوں دانت نکل رہے ہیں اوئے تمھارے۔ مجھے خود ہی بدتمیزی کا احساس ہوا اور میں نے دانت بھینچ لیے جیسے یہ بات دانتوں سے نکلی ہو جبکہ گناہ گار زبان ویسے کی ویسے دانتوں کے اندر سکون سے بیٹھی تھی۔

میں سوچنے لگا کہ یہ سارے نمونے میری ہی قسمت میں ہیں۔ پھر یہ سوچ کر تسلی دی جس ملک میں سارے ایسے ہی لوگ پائے جائیں اب آپ وہاں پر ادب اور آداب کہاں سے لائیں۔ جو میرے جسم میں جاتا ہوگا وہ بھی تو یہی سوچتا ہوگا بلکہ عین ممکن ہے اس سے بھی بڑھ کر نادر خیالات رکھتا ہو۔

چلو جی ماسٹری بھی کرلیں۔ مجھے زندگی میں پہلی بار کرسی ملی تھی وگرنہ ہم تو اسکول کے زمانے سے ہی ٹاٹی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور کرسی کی اتنی دہشت میں مبتلا تھے کہ چپڑاسی بھی کوئی بڑا عہدے دار لگتا تھا حالانکہ وہ کرسی خود کسی اور سے مانگ کر لاتا ہے اور گھنٹی کسی اور کی بجاتا ہے پر یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں نظام بھی یہی ہے کہ کرسی کسی سے مانگ لیں اور پھر بجائیں گھنٹیاں دوسروں کی جی بھر کے۔

اؤئے ادھر آ۔ میں نے کڑک لگائی۔ پر یہ اؤئے شوئے، ابے تبے، آ جا والی بدتمیزی مجھے ہضم نہیں ہورہی تھی پھر میں نے سوچا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ بدہضمی بدتمیزی کی نہ ہو بلکہ رات کا کھانا اور صبح کا ناشتہ ہو جو ہضم نہ ہو رہا ہو جو کہ ماسٹر صاحب کا ڈیل ڈول دیکھ کر شوقینی کا پتہ لگ رہا تھا۔ اوپر سے سندر بن کے جنگل سی گھنی مونچھیں۔ لڑکا بیچارہ سہما سہما میرے پاس آ گیا۔ مجھے احساس ہوا کہ ماسٹر صاحب صرف شکل سے نہیں بلکہ عقل اور نقل سے بھی گبر سنگھ ہی واقع ہوئے تھے۔

کیا نام ہے تیرا؟ میں انتہائی کوشش کے باوجود بھی 'آپکا' نہ بول سکا اور بات نرم لہجے میں تو خیر میرا کرنے کا دل ہی نہیں تھا۔ چل اؤئے مرغا بن جا۔ اس بیچارے تیلی پہلوان نما لڑکے نے ایک سے دوسری بات سنے بغیر ہی کان پکڑ لیے۔ مجھے اپنا بچپن یاد آیا گیا اور میرے آنسو آنکھوں کے کناروں پر تیرنے لگے۔ میں نے اس کو لات ماری اور کہا چل دفع ہو۔ آج کس کس نے گھر کا کام نہیں کیا ذرا یہ بتاؤ نالائقو؟

کسی نے ہاتھ کھڑا نہ کیا۔ میں بولا چلو ایک ایک کر کے ادھر مرو آؤ کام چیک کراؤ۔ سب سے پہلا لڑکا اٹھا اور میرے پاس آکر ٹفن کھولا ۔ اس میں سے بریانی کی خوشبو تھی اس نے دوسرے ہاتھ سے بستے میں سے چمچ نکالا اور چمچ ٹفن میں ڈال کر ٹفن میز کے کنارے سے میز کے درمیاں میں سرکا دیا۔

یہ کیا ابا جی کے ولیمے میں آیا ہے؟ باقی جماعت کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ ایک لڑکے نے ہاتھ اوپر اٹھا کر کچھ بولنے کی اجازت چاہی۔ نواب صاحب کو کیا تکلیف ہے؟
استاد جی میں مانیٹر ہوں۔
پھر میں لڈیاں ڈالوں؟ مانیٹر کا معاملہ تھا کلاس والے منہ پھاڑ کر تو نہ ہنسے لیکن ان کے دل کو مانیٹر کی بے عزتی سے خاصا اطمینان پہنچا۔
استاد جی آپ نے خود تو کہا تھا پیر کو ہوم ورک یہ ہے کہ گھر سے کچھ پکوا کر آنا ہے۔ مانیٹر جو ایسے مواقع کا عادی تھا بدستور بولتا رہا۔

جی اوئے استادا جی۔ یہ تو ہمارے ماسٹروں سے بھی بازی لے گیا۔ استاد جی آپ داد کے نہیں جاوید میاں داد کے مستحق ہیں میں نے دل ہی دل میں استاد کی عقل مندی کو شاباشی دی۔
چونکہ استاد والد کے جیسے ہوتا ہے اور بچوں کا فرض ہے کہ والد کو کھانا دیں۔ ایک باتونی سے رہا نہ گیا اور اس نے زبان کھولی ۔
لگا ایک مانیٹر کے منہ پر تھپڑ۔ اس باتونی کی دلی مراد بر آئی اس نے اگلے پچھلے سارے بدلے نکالتے ہوئے مانیٹر کو ایسا طمانچہ مارا کہ ایک آدھی نسل تو بیچارے کی قبر میں بھی ہل گئی ہوگئ۔
چل اب تو مار۔ میں نے مانیٹر کو کہا۔ مانیٹر پھر ایسے تو نہیں مانیٹر نہیں بنا تھا۔ اس نے ایسا تھپڑ مارا کہ نہ صرف پچھلا ادھار بے باق کر دیا بلکہ آئندہ کے لیے بھی اس کی چند ایک نسلوں پر ادھار چڑھا دیا۔
جب تک کہا نہ جائے زبان چلانے سے پرھیز کرو۔ میں نے ان کو وجہ بیان کی اور میں خود کو اچھا استاد سمجھنے لگا کہ پمارے استاد تو مار کر وجہ بھی نہ بتاتے تھے۔ بس ادھر آؤ۔ ایک طمانچہ جو گال پر ماسٹر صاحب کی انگلیوں کا سانچہ جما دیتا تھا مارا اور کہا دفع ہو جاؤ۔ اور ہم بھی ایسے سکون سے جا کر واپس بیٹھ جاتے تھے جیسے طمانچہ نہیں کھایا ناک کھجائی ہے۔ لیکن میں ایسا ناانصاف نہ تھا۔

جب سارے کھانے چکھ چکا اور جس جس کا بد ذائقہ تھا اس کی ڈنڈے سے قسمت اور باتوں سے باورچی بدلنے کا کہہ چکا تھا تو کچھ کچھ غنودگی طاری ہونے لگی۔ میں نے سوچا کچھ تو کام کرنا چاہے۔ میں سب سے پیچھے بیٹھے لڑکےکو بلایا کہ میں جانتا تھا کہ سب سے پیچھے بیٹھے لڑکے پیچھے بیٹھتے ہی اس لیے ہیں کہ استاد کی نظروں سے بچے رہیں اور تعلیم میں پیچھے رہ جانے پر اسی وجہ سے وہ ملک و قوم کے لیے بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ چل اؤئے تیرہ کا پہاڑا سنا۔ وہ نجانے پہاڑے کا سن کر ہکا بکا رہ گیا یا تیرہ اس کے لیے منحوس عدد تھا کہ وہ تیرہ سنتے ہی زمین جنبد نہ جنبد اکرم محمد ہو گیا (اس کا نام گل محمد نہیں اکرم محمد تھا) ۔ بس میں نے اس کو آؤ دیکھا نہ تاؤ اس کے بالوں میں ہاتھ ڈالا اور کہا آ تجھے شاہ رخ خان بناؤں۔ جسٹس ببر (جسٹن بیبرJustin Bieber) کی نسل نہ ہوتو۔ ریحانہ (ریاناRihanna) کی ناخلف اولاد۔ جب اس پر پچھلے چند روز کی بھڑاس نکل گئی تو میں نے اسے کہا دفع ہو جا۔

اب میں مانیٹر کو کھڑا کیا کہ یہی مانیٹر منحوس ہمیں سب سے زیادہ پٹوایا کرتا تھا حالانکہ ہم ہم جماعت تھے لیکن مجال ہے جو کبھی اس نے کوئی دن بغیر ہماری شکایت لگائے گزارا ہو اور آخر میں تو یہ حال تھا کہ ماسٹر صاحب کلاس میں واپس آتے میرا نام پکارتے مجھے اچھی طرح پیٹ کر مانیٹر کو آواز لگاتے ہاں باقی کون کون شور کر رہا تھا۔ میں نے بھی اپنے ماسٹر صاحب والا فارمولا استعمال کیا کہ مارو پہلے اور پوچھو بعد میں کہ کیا تکلیف تھی۔ آتے ساتھ اس کو ایک تھپڑ لگایا اور پوچھا کہ تجھے آتا ہے تیرہ کا پہاڑہ یا تو ایسے ہی مانیٹر بنا پھر رہا ہے۔ وہ بولا استاد جی نویں جماعت میں کیلکولیٹر کی اجازت ہے۔ تو نویں میں پہنچ گئے ہو ڈاک دار صاحب (ڈاکٹر)؟ استاد جی ہم دسویں میں ہیں۔ میں نے ایک اور تھپڑ لگایا اور بولا کہ وہ نویں جماعت کے لیے اجازت ہے دسویں کے لیے نہیں اور اگر ہو بھی تو پہاڑے بھول جاؤ گے۔ جب جملے بنانے لگو گے تو الف بے بھول جاؤ گے؟

الف بے سےمجھے یاد  یاد آیا کہ مجھے کیا اکثر لڑکے بڑی کلاسوں میں پہنچ کر ر، ڑ ، ز پر الف بے بھول جاتے تھے ۔ بس میں نے مانیٹر کو کہا چلو الف بے سناؤ۔ اب پتہ نہیں اس نے صیح سنائی (جس کا امکان واثق ہے) کہ مجھے صیح آتی تھی (جو کہ ناممکنات میں سے ہے) بہرحال نتیجہ یہ نکلا کہ مانیٹر صاحب میری میز پر چڑھ کر مرغے کی بانگیں دینے کی کوشش کر رہا تھا۔

اتنی دیر میں چپڑاسی آیا اور بولا آپ کو ہیڈ ماسٹر صاحب بلا رہے ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ میرے اعمال دیکھ چکے ہوں گے اور ابھی مجھے دھکے دے کر باہر نکلوائیں گے۔ لہذا میں نے جانے سے پہلے کہا تم جیسی نا اہل کلاس میں نے تمام عمر نہیں دیکھی پتہ نہیں میرے نصیب میں کیوں تم جان کے دشمن لکھے پڑے تھے۔ چلو باری باری سارے اپنے بائیں ہاتھ پر بیٹھے لڑکے کےمنہ پر تھپڑ لگاؤ۔ تم اسی قابل ہو کہ تمھارے منہ سرخ رہیں تاکہ تمھاری عقل کو کچھ حرارت ملے اور وہ اس حرارت سے چلنے کی ناکام کوشش کرے۔  میں نے ایک بار پھر وجہ بیان کی تاکہ بچوں میں احساس محرومی پیدا نہ ہو کہ انٹرنیٹ پر سب موجود ہے وہ کیوں اپنے جاننے کے بنیادی حق سے محروم ہیں۔

جب سب مار چکے تو ایک لڑکا جس کو اس کے ساتھ بیٹھے دوست نے ذرا زور سے مارا تھا اور وہ طے کر چکا تھا کہ اس سے ہمیشہ کے لیے کٹی ہے نے بولنے کی اجازت چاہی کہ استاد جی جو دیوار کے ساتھ بیٹھے ہیں ان میں سے دائیں ہاتھ والوں کو کسی نے نہیں مارا اور جو بائیں ہاتھ پر بیٹھے ہیں نے کسی کو نہیں مارا۔ دیکھا چپیڑیں پڑتے ہی دماغ چلنے لگا۔ یہ چپیڑیں نہیں بلکہ تمھاری بیٹری ہے جتنی پاور کا سیل ڈالو گے اتنا ہی تمھارا میڈ ان چائینا دماغ چلے گا۔

چل اؤئے مانیٹر ادھر آ دیکھ کوئی بولے تو اس کا نام بورڈ پر لکھ میں ہیڈ ماسٹر صاحب سے مل کر آتا ہوں۔ میں نے مانیٹر کو مسند تشدد سونپی اور کلاس سے باہر نکل آیا۔

سر جی آپ نے یاد کیا؟
ہاں ماسٹر صاحب آپ چھٹی کے بعد ایسا کریں گیٹ سے نکل کر دائیں ہاتھ مڑیں اور جو پہلی بائیں ہاتھ پر گلی آئے وہاں الٹے ہاتھ پر ایک سبر رنگ کا دروازہ ہے وہاں چلے جائیں۔
سر جی خیر ہے؟
جی ماسٹر صاحب وہ اعجاز صاحب کا گھر ہے بھول گئے؟ اعجاز صاحب سئنیر ٹیچر۔
جی جی- میرے فرشتوں کو علم نہیں تھا کون اعجاز اور کس کی حسن آوارگی کا اعجاز۔
ہیڈ ماسٹر صاحب مسکرائے اور بولے راستہ یاد ہے ناں؟ یہ لیں قلم کاغذ لکھ لیں، نقشہ بنا لیں۔ یہاں گیٹ سے دائیں۔ وہ والا گیٹ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے اشارہ کر کے مجھے بتایا۔

مجھے الجھن سے ہوئی کہ کہیں یہ ہیڈ ماسٹر صاحب دس منٹی تو نہیں؟ لیکن میں چپ کر گیا کہ کیوں اس بیچارے کی نوکری پر لات مارتا جس نے مجھے نہ صرف جسم دیا تھا بلکہ کرسی بھی دی تھی۔
جی اس گیٹ سے دائیں، پھر بائیں اور الٹے ہاتھ سبز رنگ کا دروازہ۔
گلی میں ایک ہی سبز رنگ کا دروازہ ہے۔
جی میں نے جواب دیا۔
ہیڈ ماسٹر صاحب نے گھڑی پر وقت دیکھا اور کہا ، چلیں اب جائیں آپ۔
میرا شک مزید بڑھ گیا۔ میری آنکھوں میں الجھن کے اثار دیکھ کر ہیڈ ماسٹر صاحب بولے باقی استادوں کو بھی بتانا ہے ناں بھئی ویسے بھی کلاس آپ کا اتنظار کر رہی ہو گی۔
میں تو ویسے اتنا بھولا تھا کہ بچپن میں جب میرے کزن مجھے کہیں نہیں لے کر جانا چاہتے تھے تو کہتے تھے ہم کتا مارنے جارہے ہیں تم نہ جاؤ کہیں کاٹ نہ لے تمھیں۔ اب اصولاً تو مجھے پوچھنا چاہیے تھا کہ پہلی بات کتے مار کر کیا پکا کر کھانے کا ارادہ ہے اور اگر سوشل ویلفئیر Social welfare کا ارادہ ہی ہے تو کوئی اور بھی اچھا کام ہو سکتا ہے اور کتا صرف مجھے ہی کیوں کاٹے گا میں نے کیا اس کے بنٹے چوری کیے تھے یا اس کی بیٹی کو چھیڑا تھا لیکن میں ہمیشہ ان کی باتوں میں آجاتا بلکہ اور جو باہر جا رہے ہوتے ان کو بھی روکتا کہ بھائی نہ جاؤ کہیں کتا نہ کاٹ لے تو ہیڈ ماسٹر صاحب کا کہنا کیوں نہ مانتا جو ویسے بھی میرے باس تھے اور ان کا کہنا ماننا ویسے ہی فرض ہوتا ہے ۔ ہم ہمیشہ کہا کرتے تھے ہر استاد کے لیے ایک ہیڈ ماسٹر اللہ میاں نے نازل کیا ہے جو اس کے ساتھ وہی سلوک کرتا ہے جو استاد طالبعلموں کے ساتھ کرتے ہیں۔

باہر نکل کر ایک اطمینان تو ضرور ہوا کہ کم ازکم میری یعنی اس بندے کی نوکری محفوظ ہے۔ میں سیدھا کلاس میں گیا وہاں میرے غصے کا خاطر خواہ اثر ہوا تھا کہ بورڈ پر ایک بھی نام نہ لکھا تھا۔ ہاں بھئی کس کس نے شور کیا۔ استاد جی سارے چپ بیٹھے رہے۔ مدر تھریسا بمبل بی آف بوہیمیا (کہنا میں مدر ٹریسا Mother Teresa چاہتا تھا لیکن وہ عمران والی تھریسا بیچ میں آ گئی) کی اولاد تو کس چیز کا مانیٹر ہے۔ چلو وہ تو چپ رہے تو ان کو بلوا بھی نہ سکا۔ اتنا نہ ہوسکا کہ ایک آدھ نام ہی لکھ لیتا بورڈ پر۔ تیرے جیسا نا اہل مانیٹر میں آج تک نہیں دیکھا۔ چل اب شاباش اپنا نام لکھ بورڈ پر۔ مرتا کیا نہ کرتا، ڈرتا ڈرتا مانیٹر بورڈ کے پاس گیا اور چاک سے اپنا نام لکھ دیا۔ ہاں بھی اب کیا سزا دی جائے اس کو؟
اب کوئی بولے بھی ناں کہ اگر وہ بولتے تو اگلی بار مانیٹر نے ان کا نام نہ بولنے پر بھی لکھ دینا تھا۔
بولتے ہو یا تم سچ مچ میں گونگا کروں؟ میں ڈھاڑا۔ اس پر بھانت بھانت کی آرا آنے لگیں۔ مجھے سب سے مزیدار یہ لگی کہ مانیٹر ڈڈو (مینڈک) کی طرح اچھل اچھل تمام کلاس کے تین چکر لگائے۔

ابھی اس نے ڈیڑھ چکر ہی لگایا تھا کہ چھٹی کی گھنٹی بج گئی۔ ہم چپڑاسی کو کہا کرتے یہ شکایتیں لگانے کی بنا پر ہیڈ مانیٹر ہے کہ مانیٹر تو محض کلاس کی شکایتیں لگاتا ہے یہ چپڑاسی تو سارے اسکول کا کراماً کاتبین بنا پھرتا ہے۔ میں نے رجسٹر وجسٹر وہیں چھوڑا اور ہیڈ ماسٹر کے دفتر چل پڑاکہ وہاں سے اس گیٹ سے باہر نکل سکوں جہاں سے ہیڈ ماسٹر صاحب نے اشارہ کیا تھا۔

میں تو یہ کیسے جانتا کہ کتنے گیٹ ہیں اور کہاں کہاں واقع ہیں کہ میں تو سکول کے نام سے بھی ناواقف تھا۔ راستے میں سوچنے لگا یار یہ عجیب بات ہوئی ہے کہ آج خاصی دیر سے جاگا ہوں۔ کہیں اس چرخے کا زور ٹوٹ تو نہیں رہا؟ کہیں چکر تھوڑا تو نہیں ہورہا، کہیں سینڈریلا کی جوتی بارہ بجے کی بجائے کسی اور وقت تو نہیں کھونے لگی؟ سوالات میرے ذہن میں کلبلانے لگے۔ میں نے سوچا آج دس منٹی ملے تو اس کے ساتھ تمیز سے گفتگو کروں گا اور وقت قطعاً ضایع نہیں کروں۔ میں سوالات بھی سوچتا رہا اور بے وقوفوں کی طرح ادھر ادھر بھی دیکھتا رہا کہ شاید کہیں سے کوئی بندہ اشارہ کر دے کہ میں ہی دس منٹی ہوں۔

اسی اڈھیر پن میں میں سبز دروازے تک پہنچ گیا۔ دروازے کو کھڑکانے لگا تو دروازہ کھلا تھا۔ میں نے سوچا مناسب نہیں کہ ایسے ہی بندہ منہ اٹھا کر بندہ اندر گھس جائے۔ پھر سوچا کہ اگر کسی نے پوچھ لیا کون تو کیا جواب دوں گا۔ میرے فرشتے ہی میرا آج کا نام جانتے ہوں تو جانتے ہوں مجھے تو علم نہ تھا۔ اسی دوران پیچھے سے ہیڈ ماسٹر صاحب آ گئے۔ چلیں نہ ۔ اعجاز صاحب اکیلے ہی ہیں۔ میں اندر داخل ہوا وہاں کوئی نہ تھا۔ میں نے مڑ کر ہیڈ ماسٹر صاحب کو دیکھنا چاہا تو کسی نے میرے سر پر زور کا وار کیا اور میں وہیں لڑکھڑا کر نیچے گرا۔ گرتے گرتے مجھے یہی ہوش رہا کہ میرے آخری الفاظ تھے، 'دس منٹی بس دس منٹ اکیلے میں مل ایک بار۔۔۔

(ایسی بھی کیا بےصبری بس اگلی قسط آخری ہوگی)

اس مسلسل مزاحیہ سائنس فکشن کی سابقہ اقساط یہاں پڑھیں
آغاز 
دو نمبری
تین کا تڑکا
چوکا 
پانچ کی کھینچ کھانچ