December 8, 2014

ادلی کی بدلی - سات ساتھ

adli ki badli- sat sath



قسط نمبر سات

اماں کہتی تھیں کہ جہاں جہاں والدین کی مار پڑتی ہے وہ جگہ دوزخ کی آگ سے محفوظ ہو جاتی ہے اور یہی محاورہ استاد صاحب بھی فرمایا کرتے تھے تو اسی روشنی میں بریف کیس یعنی زوجہ مقبوضہ شوہروں کی بیویوں کے کہے پر آنکھیں بند کرکے چلنا بھی سمجھ آتا ہے کہ جہاں دو والدین کو چھوٹ ہے تو تیسرے والدین یعنی ساس سسر کو استشنیٰ کیوں اور ان کی مار بھی سہہ کر بندہ جنت میں جا سکتا ہے تاہم یہاں پر اس بات کا ذکر اس لیے نکل آیا ہے کہ جب جب ہمیں چوٹ لگتی تھی تو اماں ایسے ہی دل کے بہلانے کو کہہ دیتی تھیں بیٹا جہاں چوٹ لگتی ہے اس جگہ کے لیے بھی جنت واجب ہو جاتی ہے تو میں روتے ہوئے بھی سوچا کرتا تھا کہ بھائی اماں اور استادوں کی مار کھا کھا کر جسم ایک چھوڑ ہزار بار جہنم کی آگ سے مکتی پا چکا ہے اب اور کتنی نجات ملے گی تو جب ہوش آیا اور سر میں ٹیسیں اٹھیں تو یہی خیال جاگا کہ جہنم سے نجات کے چکر میں یہیں پر ہی جسم ضائع ہو جائے گا۔

اب اندھیرا ہونے کی وجہ سے کچھ پتہ نہ لگ رہا تھا کہ دن ہے یا رات ہے۔ میں وہی ماسٹر ہوں یا اغوا کنندہ کو منہ کی کھانی پڑے گی کہ میرے ہاتھ بندھے دیکھ کر وہ کہیں یہ تو شادی والا معاملہ بن گیا ہے کہ دلہن لے تو کچھ اور آئے تھے لیکن صبح جب میک اپ اترا تو نکلی کوئی اور۔ کہیں میں قبائلی علاقے میں تو نہیں کہ ایک تو ویسے ہی اغوا کر کے بندے قبائلی علاقے میں پہنچائے جاتے ہیں لیکن خیر آج کل تو ہر علاقہ قبائلی ہے بس قبیلہ بنانے کو پیسہ ہو لیکن یہ بھی ہے کہ استاد عام طور پر تو قبائلی علاقے میں ہی اغوا کیے جاتے ہیں۔ میں خوش ہو گیا کہ اگر ایک آدھ گولی مار بھی دی تو شاید میں بھی میڈیا پر مشہور ہو جاؤں ، نوبل نہ سہی راسکل سہی کچھ تو واہ واہ ہونی ہے اور ویسے بھی گولی کا درد جتنی میں ان دنوں میں بے عزتی کرا چکا تھا سے کم ہی ہونا پھر خیال آیا کہ گولی بھی یہاں کام نہیں آنی کہ ہم گولی چھوڑ گولہ بھی کھا لیں ہماری قسمت میں تو فقط منہ کی کھانی ہے۔

 کسی نے مجھے انگلی چبھوئی۔ کیا تکلیف ہے؟ مجھے لگا کہ آواز میری استاد والی نہیں۔ چلو مشہور ہونے کی کہانی تو ختم ہوئی۔ ناراض کیوں ہوتے ہو بھائی۔
ہاں تو پہلے کم درد ہے اوپر سے تم انگلیاں چبو لو۔ کبھی ناخن کاٹے ہیں تم نے سیخیں پال رکھی ہیں۔ اس کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔ مجھے شرمندگی ہوئی لیکن کیا کرتا منہ پر آپ کے نقاب چڑھا ہو تو آپ بھی ایسے ہی گفتگو کریں گے۔ مجھے ادراک ہوا کہ برقع پہنی خواتین اتنی تلخی سے گفتگو کیوں کرتی ہیں۔ اور دوسرا میری کونسی خود کی زبان تھی اللہ جانے کس قینچی کے پلے پڑا تھا۔

 اب دوسری طرف سے کسی نے مجھے لات ماری۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ بڑے زور کا چکر آیا لیکن میں غصے کی شدت سے اسے برداشت کرگیا۔ کن جاہلوں میں آپھنسا ہوں کوئی لاتیں مار رہا ہے کوئی ہاتھ مار رہا ہے ۔ کبھی انسانوں کے ساتھ نہیں رہے تم لوگ۔ عجیب واہیاتگی ہے ۔ نہیں کھیلتا میں۔ تم لوگ زبان سے بھی گفتگو کر سکتے ہو۔ ابھی میری تقریر جاری ہی تھی کہ پیچھے سے آواز آئی کیا تکلیف ہے ؟
میں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا تکلیف مجھے نہیں ان کو ہے جن کو میرے ساتھ باندھ رکھا ہے۔
مرنے کا ارادہ تو نہیں ؟ ابھی میرا تقریر جانے رکھنے کا دل تھا لیکن چونکہ مرنے کا ارادہ قطعاً نہیں تھا اس لیے چپ چاپ واپس لیٹ گیا ۔

اتنی دیر میں ایک اور شخص آیا اور اس نے میرے ہاتھ کھولے اور منہ سے نقاب اتار دیا۔ میرے جیسے سات آٹھ بندھے پڑے تھے۔ وہ باری باری سب کے نقاب اتارنے لگا۔ جب سب کو آزاد کر دیا تو اس نے ہمیں اٹھنے کا اشارہ کیا اور کہا جب ہمت ہو اٹھیں اور وہ سامنے والے ہال میں جا کر کچھ کھا لیں۔ میں نے دل میں سوچا واہ اللہ میاں بے شک تو نے رزق کا وعدہ کر رکھا ہے۔ کھانے میں کیا ہے؟ میری زبان چلنے سے باز نہ آئی۔
من و سلویٰ۔ اس نے جل کر جواب دیا۔
کیا ہم جنت میں پہنچ چکے ہیں ؟ میں نے خوشی سے بھرے لہجے میں پوچھا۔
زندگی میں کوئی ایسا کام کیا تھا جو یہ امید رکھی ہے؟ بکواس بند کرو اور ادھر جا کر کھانا کھاؤ نہیں کھانا تو ہمارا سر نہ کھاؤ۔ اس نے یہ کہتے ہوئے بندوق پر گرفت مزید سخت کرلی۔
لہجہ درست کرو جا رہا ہوں کھانا کھانے۔ میں نے اس پر احسان چڑھایا۔ یہ آج کس کوے کے جسم میں گھسا دیا اللہ میاں میں خود اپنی زبان کی رفتار دلبرداشتہ شکوہ کرنے لگا۔

 کھانا اندر گیا تو ہوش آیا۔ ہم کسی لیباٹری نما کمروں میں تھے۔ شیشے کے پار کمپیوٹر پڑے تھے، کیمسٹری کی لیباٹری والی شیشیاں پڑی تھیں۔ یہ کس مصیبت میں پھنسا دیا اللہ میاں۔ مجھے یاد آیا کہ کہیں پڑھا تھا کہ گورے ہم کالوں کو پکڑ لے جاتے ہیں اور ان پر تجربے کرتےہیں لیکن وہ تو کالے بندر ہوتے ہیں ۔۔ تو کیا ہوا ہمیں کب بھلا انہوں نے انسان سمجھا ہے اس سے پہلے کہ دماغ مزید سیاست میں الجھتا میں حقیقی دنیا میں واپس آ گیا۔ میرے ساتھ سارے لڑکے سہمے سہمے تھے۔ میں نے سوچا کہیں خرکاروں کے ہتھے تو نہیں چڑھ گیا ۔ لیکن پھر سوچا کہ سنا ہے وہ تو بیگار کراتے ہیں لیکن چونکہ زمانہ ترقی کرچکا ہے کیا پتہ وہ بیگار سائنسی ہو یا پھر خود کش دھماکہ۔۔۔

یار نمک بڑا کم ڈالتے ہو کون ہے تمھارا باورچی؟ اگر یہ بندوقیں تمھارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں تو بلڈ پریشر سے بھی نہیں مرتے تم لوگ۔ مجھے اپنے آپ پر غصہ آنے لگا کہ آج میں نے اپنے آپ کو لازم پٹوانا ہے۔ اتنی دیر میں ایک بندوق بردار آیا اور بولا چلو سارے۔ یار پہلے بھوک سے نہیں چلا جا رہا تھا اب کھانے کے بوجھ سے نہیں چلا جارہا۔ ہم نے وہاں جا کر جو تیر مار لینا ہے تم ہی مار آؤ۔ میرے ساتھ والے مجھے گھورنے لگے اور میں بھی اپنے آپ کو ہی گھورنے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔ تاہم میں نے محسوس کیا کہ گارڈز کا رویہ جارحانہ نہ تھا۔ ایک نے مجھے ٹہوکا دیا کہ چلو۔ میں نے پیچھے مڑ کر کہا بھائی صاحب عزت نفس بھی کوئی چیز ہوتی ہے لہذا ہاتھ لگائے بغیر بات کریں۔ اس کو غصہ آیا اور وہ بندوق کی طرف اشارہ کرنے ہی لگا تھا کہ میں بولا چل تو رہا ہوں اب بھاگ پڑوں کیا؟

 آپ کا نام کیا ہے؟ میرے ساتھ چلنے والے نے سرگوشی کی۔
گلابو کو جس نام سے پکارو اس نے اپنی حرکتیں نہیں چھوڑنی لہذا کیا فرق پڑتا ہے جھکاسی ہو یا میراثی ہو۔ مجھے یقین ہے کہ اگر پیچھے گارڈ نہ ہوتا تو اس نے مجھے ایک تھپڑ تو جڑ دینا تھا اور تھپڑ سے نہ بھی نوازتا تو چند یادگار القابات سے ضرور نوازتا کہ نام میں کیا رکھا ہے۔
جب کا جاگا ہے تو نے کوئی بات سیدھی طرح کی ہے؟
ڈاکٹر کہتے ہیں میری پیدائش بھی الٹی ہوئی تھی۔
بالکل درست کہتے ہوں گے اس نے میری بات کی بھرپور تائید کی نہ صرف تائید کی بلکہ اس نے مڑ کر گارڈ کو ملتجیانہ لہجے میں کہا بھائی صاحب آپ یہاں پکڑ آئے ہم نے کوئی شکایت کی؟ آپ نے جانوروں کی طرح سلوک کیا ہم کچھ بولے پر کوئی حد بھی ہوتی ہے کہ نہیں ؟ ہمارا کیا قصور ہے جو اس پٹر پٹر کو ہمارے ساتھ لگا دیا؟
گارڈ بھی تنگ آیا بیٹھا تو پیچھے سے ٹہوکا دے کر بولا کیا تکلیف ہے تیری زبان کو ؟
میں نے جواب دیا عرض کیا ہے
سمجھتے کیا ہو تم میری زبان کو
یہ ٹکرائی ہے اکثر آسمان سے
ایک منٹ ایک منٹ اس سے پہلے کے آپ کفر کے فتوے لگائیں اس شعر میں شاعر میری زبان کے بارے کہتا ہے یہ اتنی لمبی ہے کہ آسمان سے جا ٹکراتی ہے ۔ اس سے آپ آسمان کی افادیت بارے بھی جان سکتے ہیں کہ اس کا ایک مقصد اس ننھی سی زبان کو روکنا بھی ہے۔
واقعی وہاں سے ٹکر ا کر رکتی ہو تو رکتی ہو وگرنہ اس کا رکنا محال ہے۔ ایک اور بولا۔
اور لڑکیوں کا نام بدنام ہے۔ ایک جلے کٹے لہجے میں بولا ۔
نہیں ایسے بھی بدنام نہیں میں خود چند ایک دن پہلے لڑکی رہ چکا۔ سب برا منہ بنا کر چپ کر گئے۔

 ہم جس کمرے میں پائے گئے تھے وہاں سے دوبارہ گزر کر ہمیں ایک اور ہال نما کمرے میں لایا گیا۔ وہاں کرسیاں لگی تھیں میں ایک پر بیٹھ گیا اور انتظار کرنے لگا کہ دیکھیں پردہ غیب سے کیا رونما ہو۔ حالانکہ یہ پردہ سے رونمائی کا کوئی ایسا اچھا تجربہ نہ رہا ہے مجھے کہ کئی بار جن برقع پوش خواتین کا پیچھا کیا جب انہوں نے نقاب الٹا تو بے اختیار دل پکار اٹھا کہ یہاں بھی وہی فارغ صنم نکلا۔ اور اتفاق دیکھیں کہ یہاں بھی ایک فارغ صنم ہی نکلا یعنی ایک بڈھا جس نے لمبا سفید کوٹ پہنا تھا۔ آپ سب کو خوش آمدید۔

وعلیکم خوش آمدید۔ میں بڑبڑایا۔
آپ مجھے جانتے ہیں؟
جانتے ایسےکہہ رہا ہے جیسے ہماری محبوبہ کا ابا ہو۔ میں ساتھ بیٹھے کو سرگوشی کی۔
بظاہر تو آپ لوگ مجھے نہیں جانتے لیکن آپ لوگ مجھے جانتے ہیں کہ آپ لوگ مجھے مختلف شکلوں میں دیکھتے رہے ہیں۔
دس نمبری بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔ سوری دس منٹی؟
جواب درست ہے وہ مسکرایا۔ الیکٹرا کہاں ہے؟َ
الیکٹرا کا تو پتہ نہیں پر الیکٹرک شاک Electric Shockضرور ہے۔
فیر اے تے نیلام گھر نہ ہویا ناں۔ میں نے خاموشی اختیار کرنے سے قبل جملہ بولنا اپنا فرض سمجھا۔
مجھے یقین تھا کہ اگر اب میں بولا تو شاک سے تواضع ہو ناں ہو ان ساتھ والوں نے اپنے شوز Shoes سے تواضع کردینی ہے۔

 آپ لوگ پچھلے کچھ دنوں سے عجیب تجربے سے گزرے ہیں۔
میں تو عجیب کے ساتھ غریب سے بھی گزرا ہوں ۔ میری آواز بھر آئی۔
ایک دم مجھے خیال آیا۔ بروٹسو(بروٹس ) تم بھی؟؟ یعنی ہم سب اسی الجھن کے گرفتار تھے۔ اچھا یعنی کہ آخر اختتام آن پہنچا میں نے ٹھنڈی سانس بھری۔

اصل کہانی یہ ہے کہ ایک ملک نے ایک ہتھیار ایسا بنایا کہ ایک ایسا مرکب بنایا جائےکہ کسی قاتل کو پلایا جائے تو وہ چوبیس گھنٹوں کے لیے اس شخص کےکسی قریبی کے روپ میں آجاتا ہے جس کو قتل کیے جانا مقصود ہے اور اس طرح وہ بغیر کسی مشکل کے رکاوٹ کے اپنا کام سر انجام دے سکتا ہے اور کرنا ہمیں بس یہ ہوتا ہے کہ جس کے روپ میں ہو اس کو چوبیس گھنٹے کے قید میں رکھنا ہوتا ہے۔ یوں یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جو کتنا خطرناک ہو سکتا ہے آپ خود سوچ سکتے ہیں۔

یار کسی کو مارنے میں اتنا تکلف کیوں کہ یہاں تو لڑکی آنکھ مار دے بندہ مر جاتا ہے۔مجھے کون چپ کراتا۔
جناب ہر بندہ آپ کی طرح ہوس کا پجاری نہیں ہوتا دوسرا اس طرح نہ ڈرون کی تنقید، نہ ربوٹ کے اخلاقی و غیر اخلاقی ہونے کی بحث، نہ لمبے چوڑے مزائلوں کا خرچہ نہ نشانہ خطا جانے کا ڈر۔
تو کنے بندے پھڑکا چکے ہو؟ میری زبان پھر پھسلی۔
اصل میں ہوا یہ ہے کہ یہ تجربہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔
 سر جی آپ کی باتیں سر آنکھوں پر نہ ہم کوئی وی آئی پی نہ ہماری سات نسلوں نے کوئی اہم شخصیت ٹی وی کے علاوہ دیکھی تو ہم اس چکر میں کیوں پھنس گئے۔ میں ہی سوال پوچھ رہا تھا باقی تو یوں بیٹھےتھے جیسے بولنے پر ان کے دوستوں اور رشتہ داروں کے ہمشکل آکر ابھی ان کو قتل کردیں گے۔

کہانی یوں ہے کہ یہ محلول امریکہ میں سائنسدانوں نے تیار کیا ہے۔
کیا ہم امریکہ میں ہیں؟ مزے آ گئے ۔ ہمارے شناختی کارڈوں پر ویزا لگ گیا ہے۔ میں خوشی سے جھوم اٹھا ۔
 شناختی کارڈ پر ویزا؟ ڈاکٹر کو بھی سمجھ نہ آئی۔
وہ پاسپورٹ تو ہے نہیں تو شناختی کارڈ پر لگانا پڑے گا ویزا۔
امریکہ تو نہیں البتہ گوانتا ناموبے جانے کے لوازمات پورے ہیں آپ کے۔ ڈاکتر نے غصے سے دانت پیسے۔ تاہم اس نے بولنا جاری رکھا۔  تو محلول تیار تو امریکہ میں ہوا لیکن پہنچانا تھا افغانستان۔ اب چونکہ کوئی نہیں جانتا اس کے سائیڈ ایفکٹس کیا ہیں تو اس کو ہوائی جہاز کی بجائے بحری رستے سے پہنچانے کا انتظام کیا گیا۔
افغانستان میں کونسا سمندر دریافت کر لیا اب ؟ ہاں دریا ضرور ہے اور دریا بھی وہ والا کہ آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔ اس ڈاکٹر کا صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو رہا تھا لیکن وہ ایک بار پھر برداشت کر گیا۔
اس کی ترسیل کنٹینر کے ذریعے کرنی تھی۔
بس پھر ترسیل تو نہ ہوئی تکمیل ہو گئی میں نے ٹھنڈی آہ بھری۔ بیڑا غرق ہو یہ کنٹینر لوٹنے والوں کا۔ پرائے مال پر نظر رکھتے ہیں پتہ نہیں کیسے لوگ ہیں؟ میں نے سینہ کوبی کرتے ہوئے ماتمی انداز میں ہانک لگائی۔
 لیکن ڈاکٹر صیب  وہ جراثیمی محلول ہمارے تک کیسے پہنچا؟ کہیں وہ و ہائی مرض تو نہیں بن گیا کہ شیشی بھری محلول کی کسی نے پتھر پر توڑی اور ساری مخلوق پر مصیبت چھوڑی۔
آپ چپ کریں گے؟ ڈاکٹر کو غصہ آگیا۔
اگر اصلیت جاننے میں دلچسپی نہ ہوتی تو خاموش تو مجھے آپ کے فرشتے نہیں کرا سکتے۔میں نے الٹا ڈاکٹر پر احسان چڑھایا۔
 ڈاکٹر نے کہا کہ اصل میں وہ محلول انرجی ڈرنک Energy Drink کے ڈبوں میں تھا اور جب کنٹینر لوٹا گیا تو وہ انرجی ڈرنک بھی باقی سامان کے ساتھ مارکیٹ میں آگیا اور آپ ان خوش نصیب بندوں میں تھے جن کے حصے میں وہ ڈبا آیا۔
تو اب اس کا سد باب کیسے ہوگا؟ یا تمام عمر ہے اپنا بدن تو آوارہ والی کہانی جاری رہے گی؟
یہ جیسا کہ میں نے بتایا ابھی ابتدائی مرحلے میں تھا تو منصوبہ یہ تھا کہ اتنی مقدار جسم میں داخل کی جائے کہ چوبیس گھنٹے بعد وہ خون سے نکل جائے اور جیسے ہی اس کا اثر ختم ہونا تھا انسان نے واپس اپنی۔۔۔ اوقات میں آجانا تھا میں نے اس کی بات کاٹی۔
 کیا مسئلہ ہے تمھارے ساتھ۔ ایک لڑکا کھڑا ہوا اور مجھے غصے سے کہنے لگا۔
ایک انرجی ڈرنک پیا تھا جس کے بعد جسم بدل جاتے ہیں۔ میں نے ڈرے لہجے میں جواب دیا۔
اس نے اپنے سر بے بسی سے ہاتھ مارا اور بیٹھ گیا۔
میں مدد کروں؟
کس بارے میں؟ اس لڑکے کے لہجے میں حیرانی تھی
تمھارا سر پیٹنے میں۔
وہ غصے میں کھڑا ہوا اور مجھے اپنی عاقبت خطرے میں نظر آنے لگی۔
بچاؤ بچاؤ میں گارڈ کو دیکھ کر چیخا۔
بند کرو یہ بکواس ۔ ڈاکٹر چیخا۔
ایک لڑکے نے ہاتھ کھڑا کیا اور میری زبان نہ رک سکی جی ان کی بھی سن لیں۔
ہمارا کیا ہوگا؟
چونکہ ہم اس ملک سے تعلق نہیں رکھتے جن کی یہ ایجاد ہے اور نہ آپ، لہذا اچھا ہی ہوگا کہ ویسے بھی آپ کونسا ایسے بڑے لوگ ہیں کہ لوگ آپ کی ان فضول باتوں پر اعتبار کر لیں گے لیکن پھر بھی باز نہ آئے تو ہم اگر پرائے جسموں میں آپ کو اٹھوا سکتے ہیں تو اصل جسم میں کیا مشکل ہوگی باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔

جی جی بڑے سمجھدار ہیں پچھلے ہفتے سے پرائے جسموں میں خجل ہو رہے ہیں۔ ڈاکتر کو غصہ آ گیا اور وہ غصے سے کمرے سے باہر جانے لگا۔
سر یہ تو بتاتے جائیں یہ جن جسموں میں ہم جاتے ہیں کیا وہ بھی اس مصیبت میں ہوتے ہیں اور بندہ جس جسم میں جاتا ہے تو اس کے جسم کا کیا ہوتا ہے؟
ڈاکٹر نے میری طرف اشارہ کر کے کہا ان افلاطون سے پوچھ لیں اور باہر چلا گیا۔

ہاں ہاں کیوں نہیں مجھے سارے معاملے کی سمجھ آ چکی ہے۔ جن جسموں میں ہم جاتے ہیں وہ اس دن چھٹی پر ہوتے ہیں جیسے دفتروں میں ہوتا ہے ناں کہ آج نعیم صاحب نہیں آئے تو کلیم صاحب آپ ان کا کام نپٹا لیں ویسے تو کلیم صاحب سوائے مینا بی بی کے کسی کے کام کو ہاتھ نہ لگائیں لیکن چونکہ باس کا حکم ہوتا ہے اور باس کا لفظ نکلا ہی بس سے ہے کہ میں نے کہہ دیا ناں بس۔ تو یہی بس وقت کے ساتھ بگڑ کر باس بن گیا اس لیے کلیم صاحب کو کام تو کرنا ہی پڑے گا۔

سب لوگوں کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور وہ میرے پر جھپٹے یہ تو سن لو ان جسموں کا کیا ہوتا ہے جو ہمارے اصلی تھے لیکن کون سنتا ہے بھنگڑ خانے میں طوطے کی آواز طوطا اس لیے کہ میں کوئی لڑکی تھوڑی تھا کہ طوطی کی آواز میں بولتا۔
جب مجھے ایک آدھ لگی تو ہوش ٹھکانے آئے لیکن زبان ابھی بھی ٹھکانے نہ لگی تھی کہ سانس گھٹنے لگا اور بے ہوشی سی طاری ہوگئی۔ ایسا لگا کوئی گیس کمرے میں چھوڑی گئی ہے۔ میں نے ہانک لگائی مجھے دنیا والو نشئی نہ سمجھو میں سونگھتا نہیں ہوں سنگھائی گئی ہے۔ بس پھر کچھ یاد نہیں۔

 آنکھ کھلی تو احساس ہوا کوئی مجھے جھنجھوڑ رہا ہے اور دور سے چیخنے چنگھاڑنے کی آواز آرہی تھی۔ اچانک کسی نے مجھے پیٹنا شروع کردیا میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا میری اپنی اماں جوتا لیے میری تواضع کررہی تھی۔ مردود نشہ شروع کردیا۔ اٹھ جا کمینے۔ میں نے ہراہ کا نعرہ لگایا اور اماں سے چمٹ گیا۔
اماں کیا جہاں سے ہی اٹھائے گی کیا۔
اماں مسکرائی اور میں بولا اماں بس اسی مسکراہٹ پر قسم سے ابا مارا گیا ہو گا۔
اس کے بعد یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اماں نے ایک بار پھر میرا جسم دوزخ سے اچھی طرح محفوظ کرنے کا فریضہ بخوبی سر انجام دیا۔ (ختم شد- منگل بدھ)

اس مزاحیہ سائنسی ناول کی سابقہ اقساط یہاں پڑھ سکتے ہیں۔