December 15, 2014

دیکھنا فٹ بال کا میچ لزبن میں

dekhna football ka match Lisbon main

سفر نامہ میڈرڈ اور ریال میڈرڈ  بارے پڑھ کر آپ ہماری فٹ بال سے محبت بارے تو آپ آگاہ ہی ہوں گے۔ اب  ایسا ہوا کہ اللہ نے کچھ ایسا دماغ میں ڈالا کہ پی ایچ ڈی کے مقالے کے لیے موضوع بھی فٹ بال کو چنا یعنی کی پڑھائی کہ پڑھائی اور مزے کا مزہ۔ ہر پاکستانی کی طرح یوں تو کرکٹ ہی میرا پہلا پیار تھا لیکن جب محبوب ہی آوارہ نکلے تو بندہ خاک محبت کرے تو آہستہ آہستہ فٹ بال کا ہو کر رہ گیا۔
یورپ آئے تو ایک شوق یہ بھی تھا کہ فٹ بال کا میچ اسٹیڈیم میں دیکھا جائے لیکن چونکہ اکیلے میں جانا نہ چاہتا تھا اور میرے جاننے والوں میں سے کوئی اور پیسے خرچنے پر راضی نہ تھا اوپر سے فٹ بال کے تماشائیوں کے حالات۔ اکثر یورپی ممالک میں ایک کلب کے شائق دوسرے کلب کے چاہنے والوں سے وہی سلوک کرتے ہیں جو ہمارے ہاں انصافیے اور نونیوں کے درمیان چل رہا ہوتا ہے اس لیے ملکی بہتری کے لیے میری ہمیشہ سے تجویز رہی ہے کہ فٹ بال کلبوں کو فروغ دیا جائے کہ محلے علاقے شہر کی خاطر لڑتے اچھے بھی لگتے ہیں ادھر ہم ان کو لڑ مر رہے ہیں جن کو اب ووٹوں کی بھی فکر نہیں رہی کہ سیاست میں بھی کرکٹ کی طرح رزلٹ بارے نہیں کہہ سکتے کہ شفاف ہے کہ نہیں۔

وہ تو آپ نے اخبار میں پڑھا ہی ہوگا کہ یوکرائن Ukraine میں چند ہندی تماشائیوں کو گوروں نے خوب ٹھکائی لگائی اور وہ بعد میں میڈیا پر شکائیتی لہجے میں کہہ رہے تھے ہم تو ہوم ٹیم کو سپورٹ کررہے تھے۔ ادھر پولینڈ میں وارسا کی دو ٹیمیں تھیں، لیگیا وارشاوا Legia Warszawa اور پولونیا وارشاوا Polonia Warszawa۔ لیگا کامیاب ٹیم ہے لیکن پولونیا ذرا قدیمی ٹیم ہے شہر کے مختلف علاقوں میں ان دونوں کے علاقے مخصوص ہیں کہ وولا Wolaمیں پولونیا کا زور ہے اور بیموووBemowo میں لیگا۔ آپ اگر بھول کر بھی ایک کلب کی علامت لگائے دوسرے کلب کے علاقے میں پہنچ گئے تو اپنی خیر منائیں۔ ایسے ہی اسپین اور برطانیہ کا حال ہے کہ علاقے مخصوص ہیں اور یہ سوچیں کہ اگر میدان سے باہر یہ حال ہے تو میدان میں کیا حشر نشر کرتے ہوں گے۔ حال ہی میں اتھلیٹیکو میڈرڈ Atletico Madrid  کے شائیقین نے میچ کے بعد ڈیپورٹیوو لا کرونا Deportivo La Coruña کے تماشائیوں کو قتل کر ڈالا۔  اس لیے ہم نے ہمیشہ اس پنگے سے دوری اختیار کی ہے۔

ایسٹونیا Estonia میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں لیکن ایک تو تنہائی دوسرا کون اس موسم میں جا کر میچ دیکھے کہ واپسی پر بندہ تو نہ ملے البتہ ایک سنو مین Snow man تماشائی کے اسٹینڈ میں پایا جائے۔ اب لزبن گیا تو دل میں خواہش انگڑائی لینے لگی لیکن ڈر اور تنہائی آڑے آئیں اور ہم نے توجہ کتابی فٹ بال تک مخصوص رکھی۔ لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ اللہ شکر خورے کو شکر دے ہی دیتا ہے تو ایک آرٹیکل کے لیے میں نے انٹرویو کرنے شروع کیے اور ان میں ایک شخص پرتگالی فٹ بال کلب اسپورٹنگ لزبن Sporting Lisbon جس کا پورا نام اسپورٹنگ کلب دی پرتگال Sporting Clube de Portugal جو کہ پرتگال کا تیسرا بڑا کلب ہے میں کام کرتا تھا۔ میرے پروفیسر نے کہا کیوں نہ اس کو کہیں ہمیں پاس دے اور ہم میچ دیکھنے چلیں اندھا کیا چاہے ایک پاس میں نے کہا ست بسم اللہ استاد جی ۔ جب میں اس کا انٹرویو کروں گا تو مانگوں گا۔ لیکن کچھ مانگنا میرے لیے انتہائی مشکل امر ہے اس لیے انٹرویو کے بعد میں نے استادجی کو لکھا کہ انٹرویو اتنا لمبا گیا کہ میں پاس کا کہنا بھول گیا۔

پروفیسر نے خود ای میل بھیج دی کہ بچے کو میچ دکھاؤ اور میچ دیکھنا قرار پایا۔ مجھے ان صاحب نے جو اسپورٹنگ لزبن میں کام کرتے تھے جن کا نام لوئیس ولار ہے نے کہا کہ آپ میٹرو سے کیمپو گراندو Campo Grande کے اسٹیشن پر پہنچ جائیں ہم وہیں پر ملیں گے۔ بس پکڑی میٹرو اور پونے آٹھ کا وقت تھا میں ساڑھے سات بجے اسٹیشن کے باہر تھا۔ اسٹیشن کے باہر گویا میلہ لگا تھا۔ لوگوں کے گروہ کے گروہ اسپورٹنگ کے مفلر لپیٹے گھوم رہے تھے۔ حالانکہ میچ کسی اہم ٹیم کے خلاف نہ تھا لیکن اس کے باوجود اسٹیڈیم کے باہر بھرپور رش تھا۔ ہر طرح کے لوگ وہاں اپنی ٹیم کا میچ دیکھنے آئے تھے کیا افسری بابو، کیا عام مزدور، کیا مرسیڈیز والا کیا میٹرو پر سفر کرنے والا، کیا بوڑھا کیا جوان ۔ لوگ اپنے دوستوں کے ساتھ آئے تھے، گھر والوں کے ساتھ آئے تھے، میاں بیوی سہیلی سہیلا آئے ہوئے تھے، والدین اپنے بچوں کو لیکر آئے تھے۔ لیکن اچھی بات یہ تھی کہ میں اکیلا نہ تھا جو اسٹیشن کے باہر کھڑا کسی کا انتظار کر رہا تھا بلکہ ہر دوسرا بندہ کسی کا انتظار کر رہا تھا۔ کچھ دوستوں کا انتظار کر رہے تھے کچھ رشتہ داروں کا۔ بجائے اس کے گھر سے اکٹھے چلتے سب اسٹیڈیم کے باہر پہنچ گئے وہاں میچ دیکھا اور پھر اپنے اپنے گھر۔

اسٹیشن کے باہر کلب کی چیزیں مثلاً مفلر، ٹوپی، شرٹ، جیکٹ، اسٹیکر وغیرہ بیچنے والوں نے اسٹال لگائے ہیں۔ یورپ میں ایک فیشن یہ بھی ہے کہ اپنے کلب کا مفلر پہننا اور اس کو کمرے میں بطور یادگار لٹکانا تو ایسے ہی میرے جیسے لوگ جو کلب کے فین نہ تھے لیکن میچ دیکھنے آئے ہوئے تھے بھی ایسی چیزیں خرید رہے تھے ۔

ایک بوڑھی اماں کلب کے اسکارف لیے بالکل دروازے پر کھڑی تھی اور سینکو یورو کا نعرہ بلند کر رہی تھی۔ اسی دوران چند انگریز آئے انہوں نے پوچھا کتنے کا تو اماں نے جواب دیا 5 کا۔ انہوں نے کوشش کی کہ معاملہ تین میں طے ہو جائے لیکن اماں کو خریداروں کی کوئی کمی تھی ۔ وہ خالی ہاتھ لوٹ گئے لیکن میرے ہوتے اماں نے آٹھ دس مفلر بیچ لیے۔

آخر کار ولار صاحب کا فون آیا اور انہوں نے کہا کہ آپ وی آئی پی باکس والی طرف سے آؤ۔ میں سمجھا شاید ان سے غلطی ہوگئی ہے کہ ہم تو وی آئی پی لاؤنج کے سامنے سے گزریں تو پاکستان میں دہشت گردی کے شبہ میں دھرے جانے کا امکان ہوتا ہے لیکن بہرحال جب بلایا تو جانا تو تھا۔ وہاں پہنچا تو انہوں نے بتایا کہ میرے پاس پریس کا اجازت نامہ ہے دیکھیں آپ کو جانے دیتے ہیں اس پر یا نہیں۔ میں دل ہی دل میں ان کی سادگی پر ہنسا کہ ہمیں کبھی کسی دکان کے سیکورٹی گارڈ نے اندر نہیں گھسنے دیا کجا اسپورٹنگ لزبن کا گارڈ۔ بہرحال وہی ہوا اور ولار صاحب جو کہ کلب کے ٹی وی پر تبصرہ نگاری بھی کرتے ہیں نے اپنی پروڈیوسر کو فون کیا کہ ایک پاس بھیجو۔ حالانکہ میں نے بہتیرا کہا کہ آپ چلے جائیں آپ کو دیر ہورہی ہے کہ آپ میچ نہ دیکھیں گے تو تبصرہ کیا کریں گے لیکن انہوں نے کہا یہ مہمان نوازی کے خلاف ہے۔ اصل میں ان کے والدین گوا یعنی جو تب پرتگال کی کالونی تھا اور جب بھارت نے اس پر قبضہ کیا تو وہ جان بچا کر پاکستان آگئے اور کچھ دن وہاں رہ کر پرتگال واپس لوٹ گئے۔ اب شاید وہ اچھے دنوں والے پاکستان کو جانتے تھے اور اس کا بدلہ چکانا چاہیتے تھے کہ اگر آج کل جاتے تو ان کے والدین نے کہنا تھا کہ گوا میں بھارتیوں کے ہتھے چڑھنا اچھا ہی ہے کہ پاکستان میں تو ۔۔۔ خیر آپ خود سیانے ہیں۔

اب ایک لڑکا میرا پاس لیکر پہنچا اور ہم وی آئی پی اسٹینڈ میں پہنچ گئے۔ ان کلبوں کے بہت سارے بزنس پارٹنر ہوتے ہیں اور ہر میچ میں ان کو پاس ملتے ہیں تو ایک میں اکیلا مفت خورا نہیں تھا وہاں بلکہ اور بھی بہت سے مفت خورے پہنچے ہوئے تھے لیکن چھڑا میں ہی تھا باقی کوئی کسی نہ کسی کے ساتھ تھا۔ میرے آگے ایک باپ بیٹا تھے ، ایک طرف میاں بیوی تھے اور ایک طرف ٹی وی کا اسٹاف۔ میچ سے قبل میں صرف یہ جانتا تھا کہ مشہور زمانہ کرسٹیانو رونالڈو Cristiano Ronaldo جس کو پرتگالی کرشتیانو خونالدو کہتے ہیں پہلے پہل اسی کلب مین کھیلتا تھا اور اب مانچسٹر یونائیٹڈ کا ونگر نانی  Nani یہیں کھیل رہا ہے۔ تاہم کھیل کے دوران دو کھلاڑیوں نے مجھے خاصا متاثر کیا ایک تو ولیم کارالہو William Carvalho جس پر پہلے ہی مانچسٹر سٹی کی نظر ہے دوسرا ان کا رائیٹ بیک سیڈرک سواریس Cédric Soares جس کے بارے میں آرسنل جانے کی افواہیں گرم ہیں۔ ویسے بھی اسپورٹنگ نے کئی اچھے کھلاڑی پیدا کیے ہیں اس لیے بڑے کلب ان کے نوجوان کھلاڑیوں پر نظر رکھتےہیں۔ 

پہلے ہاف کے اختتام پر اسکور صفر- صفر سے برابر رہا حالانکہ اسپورٹنگ نے کم از کم پانچ آسان ترین مواقع ضایع کیے۔ دوسری ٹیم کو شاید پتہ ہی نہ تھا کہ گول کدھر کرنا ہے تبھی انہوں نے ایک بھی اٹیک نہ کیا۔ ہاف ٹائم میں مجھے ولار صاحب نے بلایا کہ وہ میرے ساتھ نہ بیٹھے تھے بلکہ کمنٹری باکس میں تھے اور بولے آؤ ڈنر کریں۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں دنیا میں مشکل ترین کام کون سے ہیں تو میں کہوں گا کسی سے فون پر بات کرنا اور کسی کے سامنے کھانا کھانا۔ لیکن چل پڑا کہ اگرچہ کسی کے سامنے کھانا ناپسندیدہ ترین کام کیوں نہ ہو کھانا میرا ہمیشہ سے پسندیدہ کام رہا ہے۔ سامنے عجیب و غریب چیزوں کا انبار تھا۔ اب میں کیا پوچھتا کہ کس میں گوشت ہے کس میں مچھلی میں نے فروٹ اٹھائے اور اچھا خاصا میٹھا کہ میٹھے کے بارے تفصیل جاننا ہمیں پسند نہیں اس لیے ہم اکثر و بیشتر میٹھا اللہ کے آسرے پر کھا لیتے ہیں۔ بہت سارے مشروبات بھی کھانے میں تھے اور میں نے شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فقط کوکا کولا زیرو پر اکتفا کیا۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید مجھے اپنے وزن یا فیگر کا خیال ہے اس لیے لائیٹ یا زیرو پینے کو ترجیع دیتا ہوں تو ان لوگوں کے لیے آن دی ریکارڈ عرض ہے بندہ زیرو یا لائیٹ فقط اس لیے پیتا ہے کہ وہ عام بوتلوں سے زیادہ میٹھی ہوتی ہیں۔

بہرحال ایک انتہائی مہذب کھانا کھا کر جس میں نہ پیٹ کی بھوک مٹتی ہے نہ آنکھوں کی ہم باہر نکلے اور ولار صاحب کہنے لگے یار آپ خوش قسمت ہو کہ عام طور پر ایسے جانے نہیں دیتے کھانے والے کمرے میں۔ میں نے دل میں سوچا اگر کھلا کھانا ہوتا تو یقیناً انہوں نے جانے دینے سے انکار ہی کر دینا تھا۔

اسٹیڈیم میں، میچ کا آغاز





اسٹیڈیم کے باہر


کیمپو گرانڈو میٹرو اسٹیشن



اسکارف خرید لو

میچ دوبارہ شروع ہوا اور آخر اسپورٹنگ نے حیا کو ہاتھ مارتے ہوئے یکے بعد دیگرے تین گول دے مارے۔ تاہم مزے کی بات یہ ہوئی کہ جب جب کوئی گول کرتا تو کمنٹیٹر آواز لگاتا مثلاً لُکا۔۔۔ اور مجمع چیخ کر نعرہ لگاتا موڈریچ۔۔۔۔ لیکن میں اس روایت سے ناواقف تھا اور پہلا گول الجزائری کھلاڑی اسلام سلیمانی Islam Slimani نے کیا اور اسٹیڈیم کے اسپیکر سے آواز گونجی اسلام۔۔۔ میں حیران پریشان کہ کوئی فٹ بال میچ ہے کہ کسی مولانا صاحب کا جلسہ کہ اسلام زندہ باد کے نعرے لگ رہے ہیں۔ بہرحال میں نے زندہ باد کا نعرہ لگا دیا لیکن باقی عوام سلیمانی سے جواب دیتی رہی تاہم اسلام کے دو گولوں کی بدولت اسپورٹنگ لزبن کے اس گراؤنڈ پر چھ بار اسلام زندہ باد کا نعرہ گونجا اور اس طرح میرے ذہن میں خیال آیا اگر کوئی اپنے بچے کا نام پاکستان زندہ باد رکھ دے اور وہ فٹ بال کا کھلاڑی بن جائے تو جہاں جائے گا پاکستان زندہ باد کے نعرے لگوا دے گا لیکن کوئی ہماری مانے تو۔ میچ ختم ہوا اور اسپورٹنگ نے تین گولوں سے مخالف کلب ویتوریا کو پچھاڑ دیا۔ لوگ خوشی خوشی گھروں کو لوٹنے لگے اور میں نے ولار صاحب سے اجازت چاہی تاہم انہوں نے کہا کہ دیکھو نشریات لیکن ایک تو وہ پرتگالی میں تھی دوسرا میچ دیکھنے والوں کے سینٹوں کے بیدردی سے استعمال کےباعث پھیلنے والی خوشبوؤں کی وجہ سے میرا سر درد سے پھٹ رہا تھا تو میں نے معذرت کی کہ ابھی میں نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رات کی روشنیوں میں لزبن کی تصاویر بھی کھینچنی تھیں۔