December 23, 2014

برسلزو برسلز ائیر لائن۔ یک نہ شد دو شد

Brussels and Brussels airlines- Yak na shud do shud



برسلز Brussels جانے کی خواہش دل میں فقط اس لیے تھی کہ یہ یورپی یونین کا دارالحکومت تھا۔ اور جیسے آپ پاکستان میں رہیں اور اسلام آباد نہ دیکھیں ایسے ہی برسلز کا تھا کہ کافی عرصہ سے یورپی یونین میں خواری کر رہے تھے لیکن ہنوز برسلز دور است۔ آخر میں نے اس طریقہ نکالا کہ ایک کورس جو ایک آرگنائزیشن کے تحت منعقد ہو رہا تھا میں جانے کے لیے سکالر شپ کی درخواست دے دی کہ چلو سرکاری پیسے پر سرکار کو دیکھ آئیں وگرنہ ہمیں کورس پڑھنے سے ایسے کوئی دلچسپی نہ تھی بلکہ ہم نے یہ دیکھ کر کورس چنا تھا کہ ایسا کورس ہو جس کے اختتام پر امتحان نہ لیا جائے بلکہ حاضری کی بنا پر ہی پاس کردیں۔

ہماری تو آج تک لاٹری سے ٹافی نہیں نکلی سکالر شپ کہاں سے نکلتی تو برسلز اور کورس کو بھول بھال گئے لیکن ایک بار جو ہم یونیورسٹی گئے (ایک بار اس لیے کہ ہم روز روز یونیورسٹی جا کر اپنی عزت گھٹانے کے قائل نہیں) تو ایسے ہی یاد آیا اور میں نے اپنی اسٹڈی کنسلٹنٹ Study consultant سے پوچھا کہ باجی وہ سکالر شپ کا کیا بنا؟ اس نے کہا میں کل بتاؤں گی اور اگلے دن اس نے کہا کہ وہ تو منظور ہو گئی ہے۔

بس خوشی سے ہماری باچھیں کھل گئیں اور بھاگے بھاگے ہم کورس کی ویب سائیٹ پر گئے کہ ہمیں رجسٹر کرو لیکن بنا کچھ ملائے ساقی نے بھلا ہم تک کیسے جام پہنچانا تھا تو کورس کی آخری تاریخ گزر چکی تھی۔ ہم نے کورس والوں کو ایک درد بھرا خط لکھا جو کہ اگر ہم کسی سفارت خانے کو لکھ دیتے تو وہ ہمیں سیاسی پناہ دینے پر راضی ہوجاتے لیکن ان کورس والوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی جس سے ہمیں روز نہانے کا نقصان پتہ لگا کہ اگر روز نہ نہاتے تو بالوں میں جوئیں ہوتیں جو کانوں پر رینگ سکتیں اور ہمارا بھلا کر سکتیں۔ ہم نے بھی جواب دیا نہ تو نہ سہی ہم کونسا برسلز کے لیے مرے جارہے تھے ۔ اب مرے تو جارہے تھے لیکن انہوں نے کونسا آ کر چیک کرنا تھا بھلا کہ ہم مرے جا رہے یا مری جا رہے ہیں۔

لیکن ایک بات ہے کہ فوراً نہ سہی کچھ عرصے بعد سہی جو چاہتا ہوں وہ پورا ہو ہی جاتا ہے۔اور ایسا ہی ہوا کہ میڈرڈ کانفرنس کے لیے ٹکٹ بذریعہ برسلز ملا اور میں نے انتہائی دیکھ بال کر ٹکٹ لی کہ ایسی ٹکٹ ہو کہ بندہ برسلز میں آوارہ گردی کرسکے۔

ایک دوست جو ایک بار اٹلی گئے تھے اٹلی کی تعریفوں میں ایک تعریف یہ بھی کی تھی کہ وہاں خواتین ٹکٹ چیکر ہیں جو اتنی میٹھی گفتگو کرتی ہیں کہ اطالوی سے نابلد ہونے کے باوجود دل کرتا ہے ان کی باتیں سنتے جائیے۔ میں نے اس کو تو یہ کہہ کر قائل کرنے کی کوشش کی شکر کرو نابلد ہی ہو وگرنہ ایسی باتیں نہ کرتے لیکن جب میں ہوائی اڈے اترا اور برسلز شہر کو جانے کو ٹرین میں بیٹھا تو ایک ایسی ہی ٹکٹ چیکر وہاں بھی تھی لیکن فرق یہ تھا کہ ایک تو وہ اطالوی کے علاوہ اسپینی، جرمن اور انگریزی بھی بول لیتی تھی دوسرا لگتا ہےکسی پاکستانی نے اس کی گائیں چوری کر لی تھیں تبھی وہ مجھ سے ذرا غصے میں بات کررہی تھی۔ ہمارے پاکستان میں ویسے تو بھینس چوری کی جاتی ہے لیکن یورپ میں بھینسیں نہیں گائیں چلتی ہیں اس لیے گائے ہی چوری کی ہوگی۔ اسٹیشن سے باہر نکلا تو جو امید لگائی تھی یورپی یونین کے دارالحکومت سے سب پانی میں مل گئیں۔

اسٹیشن سے نکلتے ہی ایک گند کا کنٹینر پڑا تھا جس میں سے خوشبو کے بھبکے اٹھ رہے تھے اور اب تو کنٹینر پاکستانی تاریخ میں اتنی اہمیت اختیار کر چکا ہے کہ بندہ کچھ کہتے ڈرتا ہے اوپر سے آس پاس کئی ایسے لوگ جو شکل سے بے گھر یعنی ہوم لیس Homeless لگتے تھے لیٹے ہوئے تھے تاہم میں نے صبح سویرے کا وقت ہونے کی وجہ سے شہر کو ایک رعایت دی اور آگے چل پڑا۔

شہر اگر یورپ میں پہلا دیکھا ہوتا تو شاید اچھا لگتا لیکن اتنی جگہیں گھوم کر شہر عام سے بھی نچلے درجے کا لگا۔ نقشے میں ایک محل کا ذکر تھا جو نقشے میں کافی طول و عرض گھیرے تھا۔ وہاں جانے کے لیے قدم بڑھائے اور راستے میں ایک عمارت دیکھ کر شک گزرا شاید یہی محل ہے ۔ لیکن نقشہ کا معائنہ کیا تو وہ کچھ اور بتاتا تھا۔ اب پوچھتے پچھاتے محل تک پہنچا اور لاعلمی کے نعمت ہونے کا پتہ چلا کہ اس محل سے وہی عمارت اچھی تھی جس کو پہلے محل سمجھ رہا تھا۔ محل کی لمبائی تو بلاشبہ اچھی خاصی تھی لیکن چوڑائی بس اتنی سی تھی کہ تین چار کمرے ہی بن سکتے تھے۔ مجھے سمجھ نہ آئی کہ پتہ نہیں تب بادشاہ کے پاس پیسے نہ تھے یا تب دو گز محل کا ٹکڑا چھوٹا سا تیرا گھر ہے کا فلسفہ عام تھا۔

شہر گھومتے ایک دم پولیس کے سائرن سنائی دینے لگے ۔ یورپ میں ایسا کم کم ہوتا ہے تومیں سمجھا کوئی وی آئی پی آیا ہوا ہے ۔ اور مین چور نظروں سے دیکھنے لگا۔ اسی دوران پتہ لگا کہ جرمن فٹ بال کلب بروشیا ڈورٹمنڈ Borussia Dortmund کی بس تھی جو چمپینز لیگ کے سلسلے میں آندرلخت Anderlecht فٹبال کلب سےمیچ کھیلنے آئی تھی۔ جب بس گزر گئی تو مجھے شدت سے اپنی بزدلی کا احساس ہوا کہ ایسا خوف ہے پاکستانی ہونے کا کہ کوئی اُلٹ نہ سمجھ لے میں نے تصویر ہی نہیں اتاری۔ اور وہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا کہ ایک پاکستانی جو بلا لیے بس میں گھوم رہا تھا کو دہشت گرد سمجھ کر اس کی اچھی خاصی عزت افزائی کی گئی تو ایسے واقعات مزید محتاط بناتے ہیں لیکن کئی ایسے مواقع گزرے ہیں جب افسوس ہی ہوا کہ یار تصویر ہی اتارنی تھی کوئی خود کش جیکٹ تھوڑی اتارنی تھی۔

شہر کے بیچوں بیچ  ٹاؤن ہال Town Hall پہنچا تو لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ نیچے فرش پر بے تکلفی سے بیٹھے تھے۔ ٹاؤں ہال کے صحن کے ایک طرف کی عمارتیں بن رہی تھیں یعنی ان کی مرمت کا کام جاری تھا جس وجہ سے ایک رخ ویسے ہی مارا ہوا تھا۔ تاہم لوگوں کو پکنک مناتے دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ہمارے ہاں تو یہ کام نہر کنارے یا پارکوں میں ہوا کرتا تھا یہ شہر کے بیچوں بیچ عجیب سی کہانی تھی۔ لیکن برسلز میں سب کچھ عجیب سا تھا، نا قدیمی شہر مکمل قدیم تھا نہ نیا شہر جدید تھا۔ مختلف نسلوں کے لوگ مختلف طرز کی عمارت اور مختلف زبانیں بولتے لوگ جگہ جگہ نظر آرہے تھے گویا بارہ مصالحوں کی چاٹ تھی نہ کوئی منہ تھا نہ متھا ۔بیلجئم ویسے بھی ایک کثیرالنسلی ملک ہے اور کہتے ہیں کہ اگر یہ یورپی یونین میں نہ ہوتا تو اب تک ٹوٹ چکا ہوتا اور شہر گھومنے کے بعد کثیر النسلی کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔

اتنے سارے ملک گھومنے کے بعد مجھے خیال آیا ہے کیوں نہ جہاں جہاں جاتا ہوں وہا ں کی یادگار لاؤں۔ تو اس مقصد کے لیے اسی سال سے میں نے مقناطیس لگی یادگاریں جمع کرنا شروع کی ہیں۔ اس مقصد کے لیے گھر میں ایک بورڈ بنوایا ہے کہ بچوں کی پہنچ سے دور رہے کیونکہ فریج تو بچوں کا تختہ مشق ہوتا ہے۔ لیکن خیال تب آیا ہے جب پہلے ہی بہت سی جگہیں گھوم چکا تھا۔ تاہم دیر آید درست آید (کہ اس کے سوا دل کو حوصلہ دینے کو اور کوئی بات نہیں سوجھتی)۔ اور میں نے برسلز میں اس دکان کو ڈھونڈنا شروع کر دیا جہاں سے ایک یادگار لے سکوں۔ جب اچھی خاصی ڈھونڈ کے بعد بھی دکان نہ ملی تو مجھے حیرت یوئی کہ ادھر یورپ میں تو جہاں جائیں جگہ جگہ ریڑھیاں ٹھیلے لگائے لوگ ایسی یادگاریں بیچ رہے ہوتے ہیں۔ فن لینڈ کے شہر واسا میں البتہ نہ ملی تھی کہ چلو وہ ایک چھوٹا شہر ہے جہاں سیاح نہیں آتے لیکن برسلز جیسے شہر میں ان کا نہ ہونا ناقابل فہم تھا۔ اللہ اللہ کرکے اسٹیشن کے پاس ایک دکان نظر آئی اور میں وہاں چلا گیا۔ دکاندار ساتھ کھڑے لڑکے سے اردو میں بات کر رہا تھا۔ عام طور پر میں ایسے مواقع پر انگریزی ہی بول کر کام چلا لیتا ہوں کہ اگلا شش و پنج میں رہتا کہ کیا پتہ پاکستانی بھارتی نہ ہو۔ لیکن پتہ نہیں کیا ہوا اس روز شاید میں برسلز سے مایوس ہو کر دیسی بن چکا تھا میں نے پوچھا کتنے پیسے ہوئے؟ اس نے کہا کہاں سے ہیں میں نے بتایا اور پوچھا آپ کہاں سے ہیں کہتا ہے کشمیر سے۔ اس کے بعد نہ اس نے بتایا کہ بھارتی حصے سے یا پاکستانی حصے سے نہ میں نے پوچھا۔ اس نے پوچھا کیا کرتے ہیں میں نے کہا پی ایچ ڈی کررہا ہوں۔ کہتا ہے میری بیگم جو یہاں کی مقامی ہے یونیورسٹی میں پروفیسر ہے۔ اگر مجھے کسی اور دکان کا پتہ ہوتا تو میں وہ یادگاریں وہیں چھوڑ کر آجاتا۔ میں نے دل میں سوچا چلو برسلز نے مایوس کیا لیکن پاکستانیوں نے مایوس نہیں کیا۔ موقع ملا نہیں اور ڈینگ ماری نہیں۔ تاہم ان بھائی جان نے یہ مہربانی کی ایک پوسٹ کارڈ مفت دے دیا کہ جاؤ آدھا یورو نہیں لیتا ہماری طرف سے تحفہ سمجھ کر رکھ لو۔ میں نے سوچا چلو اتنا تو حق ہی بنتا تھا کہ ان کی باتیں سن کر اتنا تو سر درد کی گولیوں کا خرچ ہو جانا تھا۔

بہرحال جیسا بے کیف اور بد مزہ دارالحکومت کو ہونا چاہیے اتنا ہی بے کیف اور بے مزہ شہر تھا۔ واپسی پر ایک بار پھر پانچ گھنٹے رکنا تھا لیکن اس بار میں نے پندرہ یورو کی ٹکٹ بچانے کا فیصلہ کیا کہ پندرہ یورو میں بھی شہر کھوٹا تھا۔ وہ پانچ گھنٹے میں نے بہتر سمجھا کہ ہوائی اڈے پر گزار لوں۔

برسلز کی سیر


























































لیکن ابھی برسلز سے عقیدت کی ابتدا تھی اور ایک بار پھر لزبن سے آتے میرا برسلز میں قیام تھا ۔ تاہم اس بار برسلز کی بجائے برسلز فضائی کمپنی سے پالا پڑا اور لفتھانزا کی ہڑتال کی وجہ سے لفتھانزا نے ٹکٹ برسلز ائیر لائن میں تبدیل کردی اور دی بھی فرسٹ کلاس۔ لیکن ساتھ یہ بھی تھا کہ احساس ہوا کہ ہمارے سفر میں اڑچنیں ڈالنے کی خاطر دوسری بار فضائی عملے کو ہڑتال کرنی پڑ گئی۔ پچھلی بار فرانسیسی عملے کی ہڑتال نے ساری رات جنیوا ہوائی اڈے پر خواری کرائی اور اب کی بار جرمن عملے نے ہماری خواری کی ذمہ داری اٹھائی۔

ہوائی جہاز میں داخل ہو کر پہلے پہل فضائی میزبان کو دیکھ کر احساس ہوا کہ ان کو شاید ٹرینگ پی آئی اے کا عملہ دیتا ہے کہ تمام مسافر بیچارے سامان رکھنے کی وجہ سے پریشان تھے کہ فرسٹ کلاس میں آدھے سے زیادہ سامان رکھنے والےخانوں میں خود ٖفضائی میزبانوں کا سامان تھا تو مسافروں کے رکھنے کی جگہ نہ تھی ۔ فضائی میزبان بولی آپ گود میں لیکر بیٹھیں جہاز چلے گا تو کہیں رکھ دیں گے۔ اب یورپ میں سردیوں میں دس کلو کی تو فقط جیکٹ ہوتی ہے اور باقی سامان علیحدہ۔ آخر اپنا خون جلاتے سارے گود میں سامان رکھ کر بیٹھ گئے۔ ایک اور میزبان نے آکر میرے اوپر والے خانے میں جگہ بنائی اور کسی کا سامان اٹھانے گیا تو میں نے موقع سے فائدہ اٹھا کر وہاں اپنا سامان رکھ دیا لیکن جیکٹ بدستور میرے پاس تھی۔ ایک خانے میں جگہ تھی لیکن امکان واثق تھا کہ جب یہ خانہ کھلنا تھا تو نیچے بیٹھے کے سر پر آ پڑتا ۔ فضائی میزبان آئی اور جیکٹ وہاں پھنسایا اور کہنے لگی بس؟ میں نے کہا مجھے کیا جن کے سر پر گرے گی وہی جانیں۔ میری بلا سے جو ہو میرا ذمہ تو نہیں اب۔ وہ پہلے ہی میرے سے فرسٹ کلاس کی شان میں کلمات سن چکی تھی یہ سن کر چپ کر کے چلی گئی لیکن اس نے کھانے میں اپنا بدلہ اتارا اور وہ کھانا لائی جو میں نے کھانے سے انکار کردیا اور اس نے اس کھانے کو بدلنے سے انکار کر دیا۔ میں نے کہا کہ خود ہی کھاؤ ہمیں ویسے ہی بھوکا رہنے کی عادت ہے لیکن آج کے بعد اگر برسلز ائیر لائن پر مجھے دیکھنا تو اجازت ہے کہ جو مرضی سلوک کرنا کہ کہتے ہیں بھوکے کی عزت نفس ویسے کچھ زیادہ ہوتی ہے۔ کیوں جی۔۔