December 29, 2014

دہشت گردی پر قابو- ہماری درفطنیاں


ہم سمجھتے رہے ہیں کہ شاید صرف ہم ہی بونگیاں مارتے ہیں اور ہم ہی احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں لیکن اب پتہ لگا ہے کہ حکومتی اراکین بھی مجھ سے بلاگر سے کسی طور کم نہیں اور ان کی طرف جو احمقوں کی جنت واقع ہے وہ ہماری جنت سے زیادہ خیالی و روشن خیالی ہے۔ اس سے پہلے آپ جرابیں پہننے پر پابندی کی تجویز سن چکے ہیں لیکن تندور کی روٹیوں سے دہشت گردی کنٹرول کرنے کا خیال تو ایک لمحے کو ہمیں بھی شرمندہ کرگیا کہ ہم نے بلاگنگ میں پانچ سال ضائع ہی کیے لہذا اب معاملہ عزت کا ہے اس لیے ہم ایسی تجاویز لائے ہیں جن سے یہ ثابت ہوگا کہ مکمل نہیں تو آدھا پونا وزیر بننے کی اہلیت ہم میں بھی ہے۔ 
دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے تنور کی روٹیوں کی بات کی جائے تو وہ بھی دہشت گردوں کے مددگار بنتے ہیں جنہوں نے سستی روٹی اسکیم شروع کی تھی اور ساتھ ہی احساس ہوا کہ یورپی ملکوں میں دہشت گرد عام کیوں نہیں ملتے کہ وہاں برائی کی جڑ روٹی ہی نہیں۔ 

دہشت گردی پر قابو پانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ پولیس چوکیوں میں اضافہ کر دیا جائے۔ آپ سوچیں گے یہ کونسی ہم نے توپ چلا دی تو جناب عرض یہ ہے کہ کبھی کسی پولیس والے کو آپ نے کسی دہشت گرد کو پکڑتے دیکھا ہے؟ دہشت گرد چھوڑیں اب تو ان سے چور ، اچکے نہیں پکڑے جاتے۔ تو مقصد یہ ہے کہ ہر گلی ہر محلے میں پولیس کا ناکا ہو۔ جب دہشت گرد دہشت گردی کرنے نکلیں گے تو ہر ناکے پر ان کو گزرنے کو پیسے دینے پڑیں گے اور جب تک وہ منزل پر پہنچیں گے ان کی جیبیں خالی ہو چکی ہوں گی اور ابھی مزید ناکے باقی ہوں گے لہذا وہ تنگ آ کر عام آدمی کی طرح کہیں گے دفع کرو اس زندگی کو کہ جگہ جگہ بےعزتی کرانے سے موت ہی اچھی اور اپنی ہی جان لے لیں گے۔ 

ایسا ہی ایک فارمولا لاہور میں بھی لگایا گیا کہ جو لوگ لاہور کے باہر سے لاہور اپنی گاڑی پر آتے ہیں وہ ٹھوکر نیاز بیگ پر بنا ہدیہ دیے نہیں آ جا سکتے۔ اس طرح لوگ انتہائی ضروری کام سے ہی جاتے ہیں اور لاہور کی ٹریفک میں اضافے کا باعث نہیں بنتے دوسرا لاہور کا بڑے شہر اور دارالحکومت کا رعب بھی بنا رہتا ہے۔ اس تجربے کے بعد حکومت اس پولیسی چوکی سسٹم کو گلی محلے کی سطح پر نافذ کر سکتی ہے کہ لوگ گھر میں ہی بیٹھے رہیں گے اور دہشت گردی کرنے نکلے بھی سہی تو جتنے پیسوں کی بم بندوقیں لیں گے اس سے زیادہ ڈھول سپائی اس نے مروڑ لیں گے۔ یوں دہشت گردوں کو بھی مہنگائی کا احساس ہوگا بلکہ وہ ممالک اور ادارے جو دہشت گردوں کی مالی مدد کرتے ہیں پاکستان پر دباؤ ڈالیں گے کہ مہنگائی کا خاتمہ کیا جائے یوں کسی بہانے عوام کا بھی بھلا ہو جائے گا۔ 

دہشت گرد بھی لگتا ہے حکمرانوں سے ملے ہیں اور فقط عام آدمی کو مارتے ہیں لہذا اس کا ایک علاج یہ ہے کہ خاص آدمیوں کی نقل و حرکت کو عام کیا جائے اور دہشت گرد اس چکر میں رہیں گے کہ کہیں عام آدمی ملے تو ماریں لیکن ان کو موقع ہی میسر نہ آسکے گا۔ لیکن چونکہ خاص آدمی بھلا عام آدمی کی خاطر قربانی کیوں دے گا لہذا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ عام آدمی مکاؤ مہم شروع کر دی جائے۔ جب عام آدمی ہی مر کھپ جائے گا تب دہشت گرد کس کو ماریں گے اور بس بیٹھے بیٹھے اپنی توب و تفنگ کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھا کریں گے۔ لہذا لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، چوری چکاری ، بد امنی، قتل وغارت، مہنگائی، کرپشن، جیسے کاموں کو مزید فروغ دے کر دہشت گردی پر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے اور پھر ایسے کاموں سے ہماری فارغ عوام کو بھی کوئی شغل میسر آجائے گا اور مزید دیشت گرد بھی پیدا نہیں ہو سکیں گے کہ پہلے نزدیکی لوگوں سے تو نمٹیں باقیوں کی باری بعد میں آئے گی۔ 

جب موٹر سائیکل پر ڈبل سواری پر پابندی لگا کر دہشت گردی پر قابو پایا جاسکتا ہے تو جیکٹ پر کیوں نہیں۔ اب یہ کونسا سائیبریا ہے کہ سردی سے سرچھپانے کو موٹی جیکٹ چاہیے۔ ایک حکمنامہ جاری کر دیا جائے کہ جیکٹ پہننا جرم ہے اور کہانی ختم۔ خود سوچیں اب کوئی قمیض میں تو بم چھپانے سے رہا اور چھپائے گا بھی تو دور سے کچھ لٹکا لٹکا دکھائے دے دے گا اور شلوار میں تو ویسے ہی چھپانے میں کئی عیوب ہیں کہ پھٹنے کا خطرہ ٹوٹنے کا خطرہ گرنے کا خطرہ اور ویسے بھی جان پیاری ہو نہ ہو عزت سب کو پیاری ہوتی ہے۔ 


 ویسے تو ایک آسان سا طریقہ یہ بھی ہے کہ اعلان کرا دیا جائے اور بات پھیلا دی جائے کہ دہشت گرد امریکی ایجنٹ ہیں۔ یقین مانیں کوئی بھی بے شک امریکہ سے لاکھوں کروڑوں کی امداد لے رہا ہو ، اسکی اگلی پچھلی سات نسلیں امریکہ میں مقیم ہوں، اس کے تمام اثاثے امریکہ میں ہوں، خواہ اس کی امریکی عہدے داروں سے ذاتی یاریاں ہوں، چاہے وہ امریکیوں کی خوشامد میں کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہو لیکن اس کو اگر امریکی ایجنٹ کہہ دیا جائے تو اس کے تن من میں ایسی آگ لگتی ہے کہ نہ پوچھیں۔ جیسے پولینڈ اور مشرقی یورپ میں کسی کو گالی دینے کی بجائے روسی کہہ دیا جائے یا جیسے ایک وقت میں پاکستان میں بھارتی ایجنٹ اور یہودی ہونے کا الزام کام کیا کرتے تھے ۔ بس اسی امریکی ایجنٹی کا داغ چھپانے کے لیے خواہ وہ جہادی ہو یا ایجنٹ یہ دھندا چھوڑ کر کسی اور طرف کا رخ کرے گا۔ 

ایک طریقہ یہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے کہ جو شخص بھی گھر سے باہر نکلے دونوں ہاتھوں میں طوطے پکڑ کر نکلے۔ 
یوں نہ ہاتھ فارغ ہوں گے نہ گولی و گولہ چلے گا۔ اور گولی چلانے کو اس کو ہاتھ سے طوطا اڑانا ہوگا یوں جیسے ہی لوگ دیکھیں گے کہ کسی کے ہاتھ کے طوطے اڑ گئے ان کے ہوش اڑ جائیں گے یوں ہم اردو زبان کے ایک محاورے کو عملی استعمال میں لا سکیں گے۔ 

دہشت گردی سے چھٹکارے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ چند ماہر اردو دانوں کو دے دلا کر جمع کیا جائے کیونکہ ہمارے 
دانشور ایک بات پر متفق ہونا اپنی توہین سمجھتے ہیں اور جب وہ اکٹھے ہوجائیں تو یہ اعلان کردیا جائے کہ دہشت گردی دراصل اصطلاح ہی غلط ہے اور اردو میں آج دن سے لفظ دہشت گردی استعمال ہی نہیں کیا جائے گا۔ ویسے بھی دیکھیں تو ویسے بھی ہر گردی نامناسب ہی بنتی ہے لہذا دہشت گردی لفظ پر پابندی لگا کر دہشت گردی پر اچھی طرح قابو پایا جا سکتا ہے کہ جب دہشت گردی نامی لفظ ہی نہیں ہوگا تو دہشت گردی ہو گی کیسے یوں ہمارے حکمرانوں کی بھی عزت رہ جائے گی جو کبھی کبھار دبے دبے ڈرے ڈرے سہمے سہمے کہہ دیتے ہیں کہ دہشت گردوں کا نام ونشان مٹا دیا جائے گا۔ یقین مانیں اس سے آسان نسخہ ہاتھ نہیں آنا۔ 

ویسے تو دہشت گردی ختم کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ حکومت اعلان کر دے آج سے ہم سب دہشت گردی کو فروغ دیں گے، یقین مانیں جو کام ہماری حکومت نے کرنے کی ٹھان لی اس کو تو کسی کے والد صاحب بقلم خود بھی مکمل نہیں کرا سکتے۔ خود سوچیں حکومت دہشت گردی کے ٹنڈر طلب کرے گی اس میں پیسے کھائے گی اور ایمان دار دہشت گرد پہلے ہی مرحلے پر کھیل سے باہر ہو جائیں گے۔ آگے جو سرکاری افسران کے ہتھے چڑھیں گے وہ ویسے ہی ناک منہ سے لکیریں نکالتے ہاتھ پاؤں جوڑ کر دہشت گردی سے تائب ہو جائیں گے۔ جو منصوبہ وزرا کے پاس پہنچے گا وہ کہیں اچھا اس میں اتنے بندے مریں گے تو ہمارا حصہ پر بندہ اتنا ہے وہ پہنچا دیں۔ یوں دہشت گردی اپنی موت آپ ہی مر جائے گی اور ہماری ہر آنے جانے والی حکومت فخریہ کہتی رہے گی کہ دیکھیں ہم نے کیسے دہشت گردی کو فروغ دیا ہے اور دہشت گردی کو گلی گلی عام کردیا ہے جبکہ بیچارے دہشت گرد منہ چھپاتے پھر رہے ہوں گے کہ ایسی بدنامی تو بندے مارنے سے نہ ہوئی جو حکومتی سرپرستی سے سہنی پڑی۔ 


امید ہے ہماری تجاویز کوئی حکومت تک پہنچا دے گا کیوں کہ پڑھنے لکھنے والے تو ہمارے بڑے لوگ ہیں نہیں اور اگر کوئی ہاتھ صاف کر کے یہ تجویز حکومت کو اپنے نام سے پیش کرنا چاہتا ہے تو اہم اس کو متنبہ کیے دیتے ہیں کہ اس تمام تحریر کے جملہ حقوق ہم نے بڑی رضائیوں والی بکس میں محفوظ کر لیے ہیں اور اگر کسی نے یہ حقوق پاکستانیوں کے باقی حقوق کی طرح پامال کیے تو ہم اس کے خلاف ایک پورا بلاگ لکھ دیں گے۔ پہلے بتائے دیتے ہیں پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی۔